سرتاج عزیز (سابق وزیر خزانہ و خارجہ)
تحریک پاکستان کے سینئر کار کن سابق وفاقی وزیر خزانہ و خارجہ امور اورپاکستان مسلم لیگ کے سابق سیکرٹری جنرل سرتاج عزیز تحریک پاکستان کی یادیںتازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ میں نے 1944ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا تو اس وقت تحریک پاکستان زوروں پر تھی‘ چونکہ اسلامیہ کالج تحریک پاکستان کا ایک بہت ہی اہم مرکز تھا۔ اس کے بعد دو سال میں قائداعظم تین دفعہ اسلامیہ کالج لاہور آئے۔ یہاں پر کئی دفعہ ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ قائداعظم ہمیشہ طالب علموں کو اپنا بے غرض سپاہی کہتے تھے اور انہیں پاکستان کا پیغام پھیلانے کی تلقین کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ دسمبر 1945ء میںہمارے کالج میںاچانک سنسنی پھیل گئی جب یہ افواہ سننے میں آئی کہ خاکساروں نے قائداعظم پرحملہ کر دیا ہے۔ ہم سینکڑوں طلبہ لاٹھیاں‘ ہاکیاں اور جو چیز بھی ہاتھ میںآئی‘ اسے لے کر ممدوٹ والا پہنچے جہاں قائداعظم ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہمارے وہاں آنے کی اطلاع پا کرقائداعظم مسکراتے ہوئے باہر آئے اور کہنے لگے‘ میں خدا کے فضل سے محفوظ ہوں‘ آپ واپس چلے جائیں لیکن ہمارے زیادہ تر ساتھیوں نے کہا کہ ہم آج رات یہیں پہرہ دیں گے۔ اس کے بعد 25/24 طلبہ کی ڈیوٹی لگی کہ دو دو گھنٹے کے لئے دو دو طالب علم برآمدہ میں اور باقی چار لڑکے گیٹ پر پہرہ دیںگے۔ اس طرح سردی کی یہ رات عظیم فرض کی ادائیگی میں گزاری۔ مارچ 1946ء میںقائداعظم ہمارے کالج کے سالانہ کانووکیشن میں آئے۔ اس وقت تک تحریک پاکستان کا ایک اہم مرحلہ طے ہو چکا تھا اور مسلمانوں نے پنجاب میں 90 فیصد سیٹیں جیت کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ مسلم لیگ ہی ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے اور یہی کامیابی مسلم لیگ کو باقی صوبوں میں بھی ملی۔ اس کے بعد قیام پاکستان کا مطالبہ حقیقت بنتا نظر آنے لگا۔ اس جلسہ تقسیم اسناد میں قائداعظم نے اسلامیہ کالج کے تاریخی کردار کو سراہا کیونکہ ساڑھے بارہ سو طلبہ نے ان انتخابات میں مختلف امیدواروں کے حلقوں میں جا کر انتخابی مہم چلائی تھی اور ان تمام طلبہ کو ’’مجاہد پاکستان‘‘ کی اسناد بھی دی گئی تھیں۔ اس جلسہ میںقائداعظم نے طلبہ کو تلقین کی کہ وہ تجارت اور صنعت کی طرف توجہ دیں کیونکہ مسلمان ان شعبوں میں کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان ہدایات کی روشنی میں‘ میں اور میرے بہت سے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ ہم قائداعظم کی ہدایات پر ہیلی کالج سے بی کام کریں گے حالانکہ میرے والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں قانون کی تعلیم مکمل کر کے وکیل بنوں لیکن قائداعظم کی اس ہدایت نے میرے کیریئر کا رخ موڑ دیا اور میں بی کام کرنے کے بعد اقتصادیات اور مالیات کے شعبہ سے منسلک ہوگیا۔ اس کے بعد پندرہ ماہ بعد 14 اگست کا تاریخی دن آن پہنچا جب پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اس روز میں ایبٹ آباد میں تھا اور ہزارہ مسلم لیگ (جس کے صدرجلال بابا تھے) کے ساتھ مل کر دو ماہ ریفرنڈم کے لیے کام کیا کیونکہ سرحد میںمسلم لیگ کو اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی اس لئے ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ ہوناتھا کہ سرحد پاکستان میں شامل ہوگا یا نہیں‘ اس روز ہزارہ کے ڈپٹی کمشنر نے مسلم لیگ کے نیشنل گارڈ کے دستے سے سلامی لینی تھی‘ میں اس موقع کے لیے اپناسوٹ سبز رنگ میں رنگوا کر پریڈ میں شامل ہوا کیونکہ یہ انقلاب تھا کہ جو ڈپٹی کمشنر کل تک ہم پر لاٹھیاں برسا رہا تھا‘ آج ہمارے جھنڈے کو سلام کرے گا۔ یہ احساس بہت ہی شدید اور جذباتی تھا۔ اس رات پریڈ کے بعد ہمارے گھر سمیت تمام علاقہ میں چراغاں ہوا اور ہر جگہ پاکستان کے جھنڈے لہرائے گئے۔ اس طرح ہم نے سب سے بڑی اسلامی مملکت پاکستان کو معرض وجود میں آتے دیکھا۔