محترم امیر العظیم سے میری لمبی چوڑی بحث ہوئی۔ موضوع بحث سینیٹ میں چیئر مین کی تبدیلی تھا جس کا فیصلہ مشترکہ اپوزیشن نے کیا تھا مگر جماعت اسلامی نے اس اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی تھی، سو یہ واضح ہو گیا تھا کہ وہ اس دنگل سے الگ تھلگ رہے گی۔ مگر کیوں ، میں یہی جاننا چاہتا تھا۔ امیرالعظیم نے کہا کہ جب ہم نے چیئر مین کے الیکشن میں حصہ لیا تب ہمیں سخت تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ ہمارے دو ووٹوں سے فیصلہ تبدیل نہیں ہو سکتا تھا لیکن ہم یہ دو و و ٹ نہ دیتے توا س تنقید سے بچ جاتے جس کا ہمیںنشانہ بنایا گیا۔ میںنے پوچھا یہ تنقید کس بنا پر ہوئی، کہنے لگے کہ ہم کرپشن کے خلاف بولتے ہیں اور مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی پر کرپشن کی وجہ سے تنقید کرتے رہتے ہیں اور اب ہم نے اپنی الگ راہ لی ہے اور کرپشن کے خلاف تحریک تو چلا رہے ہیں لیکن ہم مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی تحریک کا حصہ نہیں ہیں ،۔ سو لوگ ہمیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ جن کے خلاف تحریک چلا رہے ، انہی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہو۔
یہی وہ پس منظر ہے جس کی وجہ سے جماعت اسلامی نے سینیٹ کی ووٹنگ سے غیر حاضری کا راستہ اختیار کیا۔ اگر وہ اپنے دوو ٹ بھگتا دیتی تو اسے بھی ان چودہ ارکان سینیٹ کی طرح گالیاں پڑ رہی ہوتیں کہ ہارس ٹریڈنگ کے بازار میں ان کا سودا ہو گیا۔ انہوںنے وفا داریاں تبدیل کر لیں ،اسلئے کہ ووٹنگ کاعمل تو خفیہ تھا۔ وزیر اعظم کے الیکشن کی طرح ڈویژن آف ہائوس کی طرح نہیں تھا جس میں ہر رکن کی رائے کا پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہے۔ اس ڈویژن میںکوئی شخص منافقت نہیں کر سکتا، کوئی اپنے ضمیر کے خلاف نہیںجا سکتا ، کوئی لوٹا نہیں بن سکتا۔ کوئی مظہر علی اظہر کی طرح ادھر علی ادھر کی گالی نہیں سن سکتا۔
جماعت اسلامی کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی۔ اب اس کا دامن ہارس ٹریڈنگ سے آلودہ نہیں ہے۔ میںنے جماعت اسلامی کے سادہ منش امیر مولانا سراج الحق کی ایک تقریر سنی ہے۔ وہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ سینیٹ چیئر مین کی تبدیلی کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی جبکہ سنجرانی صاحب سے کسی کو کوئی گلہ شکوہ نہیں اور یہ بھی کیوں کہا جا رہا ہے کہ سنجرانی صاحب کی جگہ حاصل بزنجو کولانے کی کوشش کی گئی ۔ دونوں بلوچ ہیں اور مولانا سراج الحق نے ایک کھری گواہی یہ دی ہے کہ ودنوں شریف بلوچ ہیں۔ لائق ستائش انسان ہیں ،اب یہ سازش کیوں کہ ایک بلوچ کو دوسرے بلوچ کے مقابل لا کھڑا کیا گیا۔ سراج الحق صاحب نے درد دل سے کہا کہ بلوچستان پہلے ہی محرومیوں اور مسائل کا شکار ہے۔ اس نے بہتر برسوں میں کافی زخم سہے ہیں،۔ ہم ان زخموں کو مندمل کرنے کے بجائے ان پر الٹا نمک پاشی کرنے پر کیوں تلے بیٹھے ہیں۔ بڑی دانش مندی اور حب الوطنی سے لبریز باتیں ہیں مولانا سراج الحق کی،۔ جماعت اسلامی کا پالیمانی قد کاٹھ بہت بڑا ہو گیا ہے لیکن اس کا کردار ہمالیہ جیسا ہے۔ وہ جس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے تو تن کر کھڑی ہوتی ہے۔ اس نے مشرقی پاکستان میں ملک کی بقا کی جنگ میں پاک فوج کا ساتھ دیا اور بنگلہ دیش کی حکومت نے اسے جرم غداری پر محمول کیااور جماعت کے بزرگ راہنمائوں کو پھانسیاں دیں۔ جماعت نے انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ یہی جماعت ہے جس کے راہنما مولانا مودودی کو یہ کہنے کی جرات ہو سکتی تھی کہ آپ اپنے گھر کی حفاظت کے لئے ایک چوکیدار رکھیں اور ایک دن وہی چوکیدار اپنی بندوق کے بل بوتے پر آپ کے گھر پر قبضہ جما لے۔ اسی مولانامودودی کو ایک جزوی مارشل لا میں پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ حکمرانوں کو اس سزا پر عمل درآمد کی جرات نہیں ہو سکی اور وہ زندہ سلامت پھانسی کی کوٹھری سے ہنستے مسکراتے آئے اور یہی مولانا مودوی تھے جب ملک پر بھارت نے ستمبر پینسٹھ میں جارحیت کی تو وہ ملک کے فوجی حکمران فیلڈ مارشل ایوب خاں کے ساتھ کھڑے ہوئے تاکہ دشمن کو سگنل ملے کہ پاکستانی قوم آزمائش کی اس گھڑی میں متحد ہے۔ ایک ہے اور سیسہ پلائی دیوار ہے۔
جماعت اسلامی کی سیاست میں کئی پیچ و خم آئے۔ وہ فوجی حکومتوں کا حصہ بنی مگر فوجی حکمرانوں کو چلتا کر نے کی تحریکوں میںبھی وہ پیش پیش تھی۔ جماعت اسلامی ملک کی واحد ایسی جماعت ہے جس میں باقاعدگی سے ہر منصب کے لئے الیکشن ہوتے ہیں ،۔ اس جماعت میں پدرم سلطان بود کی روایت نہیں۔ نہ کوئی شہزادہ اور شہزادی ہے ۔ مو روثی سیاست کا دور دور تک نشاں نہیں ملتا جبکہ باقی بزعم خویش جمہوری پارٹیاں انتہائی غیر جمہوری رویئے کی حامل ہیں ۔ خاندانی سیاست کا دور دورہ ہے۔ جمہوریت کامحض زبانی کلامی دعوی ہے۔ جماعت اپنا دامن ا ن برائیوں سے آلودہ نہیں کرتی۔انتخابی سیاست میں وہ حصہ ضرور لیتی ہے۔ اتحادی سیاست بھی کرتی ہے۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بھی قائل ہے مگر گھر پھونک تماشہ دیکھ کی وہ قائل نہیں ۔ سینیٹ کا حالیہ ووٹ تو سراسر بے مقصد تھا۔ سنجرانی صاحب ہٹ جاتے تو ان کے دل اور دماغ میں ایک زخم لگ جاتا کہ انہیں ملک کے دو بڑے صوبوںنے سیٹ سے ہٹوایا ہے اور وہ بڑی آسانی سے پاکستان دشمنوں کے ہتھے چڑھ جاتے۔ ہم نے بلوچوں کو اپنے ایسے ہی رویوں سے دور کیا ہے اور ان پر غداری کے مقدمے قائم کئے ۔ انہیں آپریشن کا نشانہ بنایا مگر اس وقت اچھی خبر یہ ہے کہ ہر کوئی انہیں قومی دھارے میںلانے کا خواہاں ہے مگر سنجرانی صاحب کو نشانہ بنانا اس قومی سوچ کے منافی تھا۔ اس شخص کے کسی غیر جمہوری رویئے کی شکائت کسی سینیٹر کو نہ تھی ۔ محض کسی انا کی خاطر یہ ڈھونگ رچایا گیا۔ جماعت نے عقل سلیم کااستعمال کیااورا س دنگل کا حصہ نہیں بنی۔پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ا سنے ایک نیا، روشن اور قابل فخر باب رقم کیا ہے۔
جماعت اسلامی نے ملک اوراس کے عوام کی سنگین مسئلے پر توجہ مرکوز کرر کھی ہے۔ اس نے ملک کے کونے کونے میں مہنگائی مارچ کیئے ہیں۔ اس نے عوام کے مسائل اور ان کے دکھ درد کااحساس کیا ہے ۔ وہ اس مہنگائی کو روکنے کرنے کا مطالبہ کرر ہی ہے جس نے غریب کے منہ سے نوالہ چھین لیا۔ جس نے مریض کو دوائی سے محروم کر دیاا ور غریب کو مجبور کردیا کہ وہ اپنے بچے کو اسکول سے اٹھا لے۔ جماعت اسلا می ملک کو اس انہونی سے بچانے کی کوشش کرر ہی ہے جس نے گوربا چوف کے ہاتھوں سوویت روس کوٹکڑے ٹکڑے کر دیا، جماعت ا سلامی ایک بار پھر ملکی سلامتی کو بچانے کے لئے میدان عمل میں ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38