میں نے حال ہی میں 1995ء میں ہونے والے بوسنیا کے مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں ایک یادگاری سیمنیار میں بطور چیف گیسٹ شرکت کی۔ میرے لئے یہ خوشگوار حیرت تھی کہ سینئر صحافی عامر غوری نے بھی اس سیمینار میں بوسنیائی مسلمانوں کے قتل عام پر اظہار خیال کیا۔ دوسرے مقررین نے بھی 1995ء میں سربینکا میں ہونے والے مسلمانوں کے اس قتل عام پر اظہار خیال کیا۔ سربینکا میں سات ہزار بوسنیائی مسلمانوں کا بوسنیا کی سرب فوج کے ہاتھوں قتل عام ہوا تھا۔ قتل کئے جانے والے مسلمانوں کا قصور صرف اتنا ہی تھا کہ وہ بوسنیا میں اپنے شہروں میں اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنا چاہتے تھے۔ بوسینا کے مسلمان اپنے لئے الگ علاقہ چاہتے تھے۔ جہاں وہ اپنی زندگیاں اسلامی عقاید کے مطابق بسر کرسکیں۔ بوسنیا کے مسلمانوں کی دریائے درینا کے ساتھ وادی میں اکثریت تھی لیکن سرب نسل کی فوج اور لوگوں کو یہ قبول نہیں تھا۔
بوسنیا کی مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے کو سرب فوج نے گھیرے میں لے لیا اور ان کی زندگی جہنم بنا دی گئی۔ سرب فوج کے مظالم اور بربریت سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے مسلمان جہادی دنیا بھر سے یہاں پہنچ گئے۔ عامر غوری نے اپنی تقریر کے دوران اس بوسنیائی مسلمان لڑکے کے بارے میں اپنی بڑی جذباتی نظم بھی سنائی۔ جو انہوں نے اس لڑکے کی اس تصویر کو دیکھ کر لکھی تھی جب یہ لڑکا اپنے گاؤں کو اور اپنے والد کو خدا حافظ کہتے ہوئے بچھڑ رہا تھا۔ یہ بڑا جذباتی منظر تھا۔ باپ اپنے بیٹے کو خدا حافظ کہہ رہا تھا تاکہ وہ اپنی زندگی کسی محفوظ جگہ پر گزار سکے۔
یہ جنگ کے دنوں کی تصویر تھی۔ جب مسلمان آبادی گھیرے میں تھی بالکل اس طرح جس طرح کشمیری مسلمان ان دنوں بھارتی فوج کے نرغے میں ہیں۔ عامر کا کہنا تھا کہ تصویر دیکھ کر مجھے جو محسوس ہوا کہ جو لڑکا باپ سے بچھڑ رہا ہے۔ وہ میرا اپنا بیٹا ہے ۔ یہ تصویر دیکھ کر عامر اس بچے کی تلاش میں بوسنیا کے ایک مرکز میں پہنچ گیا۔ یہ نظم سن کر عام سامعین انتہائی جذباتی ہوگئے۔ یہ نظم اس جذباتی منظر کی عکاسی کررہی تھی۔ جس سے اس وقت بوسنیا کے مسلمان جذباتی طور پرگزر رہے تھے۔ جو صحافی جنگ اور اس کی تباہ کاری کو کور کرتے ہیں وہ متاثرہ لوگوں کے احساس اور جذبہ کی صحیح عکاسی کرتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ قارئین یہ نظم پڑھ لیں تاکہ وہ بھی ان جذبات کا اندازہ کرسکیں جن سے جنگ زدہ بوسنیا کے مسلمان گزر رہے تھے۔
میں عامر کو ان دنوں سے جانتا ہوں جب میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ جلاوطنی کی زندگی بسر کررہا تھا۔ بے نظیر مذکورہ صحافی کی بڑی عزت کرتی تھیں۔
اس سیمینار میں مجھے احساس ہوا کہ ایک صحافی کے اندر ایک بڑا شاعر موجود ہے۔ اس نظم کو سنتے ہوئے مجھے ان کشمیری بچوں کا خیال آرہا تھا جن کے والدین کو کم سن بچوں کے سامنے بھارتی فوج بے دردی سے شہید کر دیتی ہے۔ یا والدین کی آنکھوں کے سامنے ان کے کم سن بچوں کو گولیاں مار کر شہید کر دیا جاتا ہے نظم میں جس بوسنیائی بچے کی بات ہورہی تھی ممکن ہے وہ بعد میں واپس اپنے والد کے پاس آگیا ہو لیکن کشمیر میں تو بچے اپنے والدین جنہیں شہید کر دیا جاتا ہے ان کی قبروں کو بھی نہیں پہچان پاتے۔ عامر سے گزارش ہے کہ وہ کشمیری بچوںکے المیے کو شعری ادب میں بیان کریں ۔ عامر غوری نے کشمیری بچوں کے المیہ پر نظم لکھی تو بوسنیا اور کشمیر کے مسلمان بچوں پر لکھی گئی یہ نظمیں اقوام متحدہ کی عمارت میں دیوار پر نصب کی جانی چاہئیں
بھارتی فوج نے کشمیری بچوں کی زندگیوں سے روشنی چھین لی ہے اور انہیں تاریکی میں دھکیل دیا ہے۔ مجھے اسی کشمیری بچی کی وہ تصویر یاد آ جاتی ہے جو اپنی والدہ کی گود میں بیٹھی ہے لیکن بھارتی فوج نے پیلٹ گن سے اس کی آنکھیں تباہ کر دی ہیں اور اس کی بینائی جاتی رہی ہے۔
میں آخر میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری پر زور دیتا ہوں کہ وہ نہتے لوگوں کو خاص طورپر کشمیری مسلمانوں پر ہونے والی بربریت کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ مجھے توقع ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مقبوضہ کشمیر میںپلیٹ گن سے کشمیری بچوں کے چہروں اور جسموں کو داغدار کرنا بند کریں گے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38