ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
جی آر اعوان
شاہد خاقان عباسی نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھال لیا ہے۔ مسلم لیگ ن کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ وزارت عظمیٰ شریف خاندان سے باہر کسی کو دی گئی ہے۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ایسے میں ایک مضبوط اور پالیسی ساز وزیراعظم ہی اعتماد کے ساتھ وطن عزیز کو بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نے شاہد خاقان عباسی پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے وزارت عظمیٰ پر متمکن ہونے کے بعد وہ ایسے تاریخ ساز فیصلے کریں کہ ان کا کہا ہوا یہ جملہ حقیقت بن جائے کہ وہ 45 دنوں میں 45 مہینوں جتنے کام کریں گے۔ ویسے اُن کے اس جملے سے یہ بھی نظر آتا ہے کہ وہ عبوری نہیں بلکہ ن لیگ کی حکومتی مدت کی تکمیل تک وزیراعظم رہیں گے۔
عام تاثر یہ بھی ہے کہ شہباز شریف اگر وزیراعظم بن گئے تو پنجاب ن لیگ کی گرفت کمزور ہو جائے گی اور پارٹی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بہرکیف حلف کی پاسداری کے لئے نئے وزیراعظم کو اپنی صلاحیتوں کے کئی امتحانوں سے گزرنا پڑے گا۔ بہترین ملکی مفادات کے لئے ٹھوس فیصلوں پر انہیں اپنی تمام تر توانیاں صرف کرنی پڑیں گی۔
کمزور خارجہ پالیسی نئے وزیراعظم کے لئیسب سے بڑا چیلنج ہے۔ گزشتہ چار برسوں میں وزارت خارجہ کا قلمدان سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے پاس رکھا جس سے سفارتی محاذ پر پاکستان بہت سے ایشوز پر فوری رسپانسسے محروم رہا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور افغانستان ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ کمزور خارجہ پالیسی ہی ہے جس کے باعث دہشت گردی کے حوالے سے مودی اور ٹرمپ سے نمٹنا ہمارے لئے اتنا آسان نہیں۔
تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں میں خارجہ پالیسی پر نظرثانی انتہائی ناگزیر ہے۔ سرحدوں پر بھارت کی چھیڑ چھاڑ، عرب ممالک میں کشیدگی اور مسئلہ کشمیر کے لئے وزارت خارجہ کے لئے نئی اور تیزتر حکمت عملی نئے وزیراعظم کے لئے چیلنج ہے۔ جارحانہ پالیسیاں بنانے کے لئے خود مختاری کا احساس اور استعمال وزیراعظم کا کڑا امتحان ہے۔ بھارت جس طرح پاکستان کو تنہا کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس جہت پر نئے وزیراعظم کی توجہ اور اس طرز عمل کی بیخ کنی اُن کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
جہاں تک معاشی پالیسیوں کا تعلق ہے۔ ایک جاپانی جریدنے پاکستانی معاشی پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے جو معیشت قرضوں کے سہارے چلائی جا رہی ہو اس کی پالیسیاں دیرپا کیسے ہو سکتی ہیں حالانکہ نواز شریف حکومت عمدہ کارکردگی اور معاشی ترقی کے ڈنکے بجاتی رہی ہے۔ نئے وزیراعظم کو اس جہت میں بھی سوچنا ہو گا۔ الیکشن 2018ء میں تھوڑا سا فاصلہ ہے۔ خدمت کے فقدان میں کوئی عذر ناقابل قبول ہو گا۔ نئے وزیراعظم ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ملک کو کرپشن سے نجات اور غیر جانب دارانہ احتساب کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔
نواز شریف اگرچہ بادشاہ نہیں رہے لیکن بادشاہ گر رہنا چاہتے ہیں ان کی اِسی تمنا کا نتیجہ یہ ہے شاہد خاقان عباسی عبوری وزیراعظم ہیں۔اسی لئے مستقل وزیر اعظم کے لئے بھی بادشاہ گرشاہد خاقان ہی کو مسند اقتدار پر دیکھنا چاہیں گے
وزیراعظم کے انتخابات کے موقع پر بعض خوشگوار چیزیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے فرینڈلی اپوزیشن کا تاثر بھی واضح محسوس کیا گیا، یہ جھلک ظاہر کرتی ہے کہ ماضی کی کبھی حریف کبھی حلیف دونوںجماعتیں جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے میں یکساں دلچسپی رکھتی ہیں۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ نومنتخب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں مسلم لیگ ن اپنی حکومتی مدت پوری کرے۔ اس کے علاوہ نومنتخب وزیراعظم اپنے حریف نوید قمر کے ساتھ گزرے دنوں کی یادیں تازہ کرتے رہے جبکہ جواب میں نوید قمر نے بھی ان یادوں کی دلچسپی کوبعض اضافوں سے دوچند کیا ،تاہم مجموعی طور پر اپوزیشن کی جانب سے شاہد خاقان عباسی سے اسی توقع کا اظہار کیا گیا کہ وہ اہم ملکی امور پر اپنی صلاحیتوں کو صرف کریں اور اُن حالات کا شکار ہونے سے بچنے کی کوشش کریں جو اُن کے پیش رو کو پیش آ چکے ہیں۔ شیخ رشید بھی نئے وزیراعظم کے حریف تھے وہ اگرچہ تیسرے نمبر پر رہے تاہم ان کے خطاب کے دوران پی ٹی وی کے کیمروں کی جانب داری اور بعدازاں مسلم لیگی کارکنوں کی طرف سے حملہ، ایسی روش ہے جس کا ترک بہرحال لازم ہیں۔ تنقید اور توصیف حکومت اور اپوزیشن ارکان کا حق ہے لیکن مخالفت برائے مخالفت تعمیری سوچ کی قا تل ہے۔ نئے وزیراعظم کو اس حوالے سے بھی کوئی مثبت حکمت عملی اختیار کرنی پڑے گی۔