یوم مادر ملت کے لیے صرف نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں برادرم شاہد رشید نے اپنی مخلص ترین ٹیم سے مل کر ایک شاندار پروگرام کیا۔ یہ ڈاکٹر مجید نظامی کی خواہش کے مطابق ہے۔ وہ جو جمہوریت کے نعرے لگاتے ہیں کیا اس سے بڑی کوئی تحریک جمہوریت کے لئے تھی جو مادر ملت کی قیادت میں لوگوں نے چلائی۔ مادر ملت کے جلوسوں میں بھی وہ لوگ گھس گئے تھے جو ہر دور میں صرف مفاد حاصل کرنے کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ بہت بڑی دھاندلی اس صدارتی انتخاب میں ہوئی جس کا تصور بھی عمران خان نہیں کر سکتے۔ مگر یہ ایک بُری روایت ہے جو مختلف حکایت میں ڈھلتی رہتی ہے۔ ہماری جمہوری تاریخ ان حکایات سے بھری ہوئی ہے۔ اسے بھی سیاسی روایت بنا دیا گیا ہے۔
یہ عجیب حیرت ہے کہ مادر ملت کے ہارنے کے بعد دھاندلی کے خلاف تحریک کیوں نہ چلی۔ یہ تحریک چلتی تو ضرور کامیابی حاصل ہوتی۔ مادر ملت صدر پاکستان بنتیں۔ پھر پاکستان میں صدارتی نظام سیاست قائم ہوتا اور جنرل حمید گل بہت خوش ہوتے۔ وہ صدارتی نظام کے بہت بڑے حامی ہیں۔ میں بھی چھوٹا موٹا حامی ہوں۔ پارلیمانی نظام نے دھاندلی کرپشن نااہلی اور مس گورننس کے سوا کچھ نہیں دیا۔ صدارتی نظام میں ٹیکنوکریٹس بھی آ سکتے ہیں اور یہ پاکستانی روایت کی جمہوریت کے لئے آئیڈیل ہے۔
بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ تب کہاں تھے۔ انہوں نے ایک منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور ان کی وزیراعظم صاحبزادی برطرف شدہ بے نظیر بھٹو بھی بابائے جمہوریت سے عقیدت کا مظاہرہ کرتی رہی۔ نواب زادہ صاحب نے منتخب وزیراعظم نواز شریف کے خلاف بھی تحریک نجات میں حصہ لیا۔ اپنے بڑے بیٹے کو فوجی حکومت میں وزیر بنوایا اور خود بی بی کے دور میں کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہوئے۔ باقی تفصیل برادرم منیر احمد خان سے پوچھیے۔ زندگی میں پہلی بار نواب زادہ صاحب کسی بیرون ملک دورے پر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد ’’صدر‘‘ زرداری اور نواز شریف نے مولانا فضل الرحمن کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنایا۔ اس منصب کی اصل اوقات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے؟
محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کا خطاب مرشد و محبوب مجید نظامی نے دیا تھا جسے ساری قوم نے قبول کیا۔ اور وہ اب مادر ملت ہیں۔ ان کے نام سے کم لوگ واقف ہیں۔ آج جو کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے تو شاہ حسین کا یہ مصرعہ یاد آتا ہے۔
مائے نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال
میں تو سمجھتا ہوں کہ قائداعظم کے بعد اگر محترمہ فاطمہ جناح کو گورنر جنرل بنا دیا جاتا تو پاکستان کی تاریخ ہی مختلف ہوتی۔ انہیں قائداعظم نے گورنر جنرل نہ بنایا کہ موروثی سیاست کا شک ہوتا۔ سیاستدانوں نے صدارتی امیدوار انہیں میرٹ پر بنایا۔ کوئی بھی سیاستدان یہ جرات نہ کر سکا۔ اپاہج گورنر جنرل غلام محمد کی طرح نہ وہ اسمبلیاں توڑتیں اور نہ اپنے عظیم بھائی کے ساتھیوں کی حکومت توڑتیں۔
اگر وہ صدر بن گئی ہوتیں تو بھی پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی مگر ہمارے مقدر میں یہ تاریخ لکھی ہوئی نہ تھی؟ مادر ملت مشرقی پاکستان میں جیت گئی تھیں کہ وہاں دھاندلی کرانے کی کوشش ناکام ہوئی۔ تو پھر بنگلہ دیش کیسے بنتا۔ مادر ملت گلاب کی طرح خوبصورت اور نرم دل تھیں مگر ایک سچے منتظم کی طرح سخت گیر بھی تھیں۔ ان سے محبت ہوتی تھی اور ان سے ڈر بھی لگتا تھا۔ وہ اپنے بھائی کی طرح کسی طرح کی بے اصولی اور لاقانونیت برداشت نہ کر سکتی تھیں۔ جنرل ایوب ان کے حق میں دستبردار ہو گیا ہوتا تو ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جاتا۔ میں نے سید مودودی جیسے جید انسان کو ان کے قدموں میں بیٹھے دیکھا۔ میں نے قائداعظم کو نہیں دیکھا مگر مادر ملت کے جلسوں میں ان کی مقبولیت بلکہ عقیدت کی انتہا دیکھی۔ لوگوں کی محبت کا تقاضا تھا کہ دھاندلی کے خلاف تحریک چلائی جاتی اور یہ تحریک پاکستان بن جاتی۔ یہ کیا سازش تھی؟ ہماری سیاسی تاریخ سازشوں سے بھری پڑی ہے۔ سیاستدان جواب دیں۔
نجانے کیوں میری خواہش ہے کہ مریم نواز مادر ملت کے نقش قدم پر چلیں۔ مجھ پر موروثی سیاست کی حمایت کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔ میں اس کے لئے اتنی حمایت کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص اہل اور اہل دل ہے تو اسے اس کی سزا نہ دو کہ وہ بڑے باپ کا بیٹا یا بیٹی ہے۔ لوگوں نے مادر ملت کے لئے جان و دل سے حمایت کی تو وہ بھی قائداعظم کی بہن تھی۔ وہ اس کے علاوہ بھی کچھ تھی، بہت کچھ تھی اور ہے۔ اور بابائے قوم نے کہا تھا کہ پاکستان میں نے اور میری بہن نے بنایا ہے۔ اس میں ہمارے ٹائپ رائٹر کی خدمات بھی شامل ہیں۔ لوگوں نے اپنے قائد کی ہر بات کی تائید کی کہ انہیں یقین تھا کہ وہ سچا آدمی ہے۔ عاشق رسولؐ ہے۔ جینوئن مسلمان ہے اور مسلمانوں کا وکیل ہے۔ یہاں وکیل کے معانی مددگار اور قائد کے ہیں تو مادر ملت کو ان کا جانشین ماننے سے کسی کو انکار ہے؟ میں مادر ملت کی تقریب کے شاندار اجلاس کیلئے صدر رفیق تارڑ ڈاکٹر رفیق احمد چیف جسٹس میاں محبوب احمد برادرم فاروق الطاف برادرم شاہد رشید اور اس کی ساری ٹیم کا شکر گزار ہوں۔ بشریٰ رحمن ڈاکٹر پروین خان صفیہ اسحاق، نائلہ، ڈاکٹر راشدہ قریشی اور فوزیہ چغتائی کا شکر گزار ہوں۔ شاہد رشید نے موجود سب خواتین کو موقع دیا کہ وہ مادر ملت کی اس تقریب میں پوری طرح شریک ہوں افسوس ہے کہ پاکستان میں ابھی تک مادر ملت کا نعم البدل پیدا نہیں ہوا۔ جس طرح بابائے قوم کا سچا پیروکار پیدا نہیں ہوا۔ بے نظیر بھٹو کو بھی پورا موقع نہ ملا۔ پیپلز پارٹی میں ایک خاتون شہلا رضا ہیں۔ وہ دیکھنے میں کبھی کبھی بے نظیر بھٹو کی طرح لگتی ہیں۔ کیا ان کے لئے گنجائش ہے کہ وہ بی بی کے نقش قدم پر چلیں اور کسی جگہ پر پہنچیں۔ سندھ اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر ہیں گورنر سندھ بھی بنیں۔ اس سے آگے کے لئے سوچا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی اکثر عورتوں کیلئے سراپا میں بی بی شہید کی جھلک پڑتی ہے مگر کیا کوئی بی بی جیسی بن سکتی ہے؟ بی بی شہید جیسی تو ہیں مگر بی بی تو بنیں؟
عمران خان کے حوالے ریحام خان کی معرکہ آرائیاں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ عمران نے دھاندلی کی بات کی تو مادر ملت یاد آئیں اور بے نظیر بھٹو کو بھی دھاندلی میں چمک نے چندھیا دیا۔ دھاندلی کو ایک قومی ایشو عمران خان نے بنایا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اب دھاندلی نہیں ہو گی۔ اب دھاندلی کے لئے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ ضمنی الیکشن میں دھاندلی کا الزام نہیں لگا۔ عمران کہتا ہے کہ ہمیں اسمبلی میں نہیں جانا چاہئے۔ مولانا فضل الرحمن کر لئے جو کچھ کرنا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں دوبارہ الیکشن ہوئے تو تحریک انصاف جیتی۔ قومی اسمبلی کیلئے بھی یہی حال ہوگا تو مولانا کیا کرنا چاہتے ہیں…؟
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024