اگر پاکستان کے لوگ ساری عمر کچھ کیے بغیر آرام سے بیٹھ کر کھانا چاہیں یا اس ملک کے لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ”من و سلویٰ“ اترتا دیکھنا چاہیں تو یہ کچھ ایسا ناممکن بھی نہیں ہے۔کالم نگار کا یہ جملہ کسی دیوانے کی بڑ ہے نہ ہی طنز میں بجھا کوئی نشتر ہے بلکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جسے آج تک مکمل طور پر سمجھا ہی نہیں گیا۔ اگر اس حقیقت کو پاکستان کا مقتدر طبقہ شروع دن سے ہی سمجھ لیتا تو اس دھرتی کو اتنے زخم اور اس دھرتی کے باسیوں کو اتنے دکھ نہ ملتے، لیکن افسوس تو یہی ہے کہ جن بداندیشوں کے سینے میں دل کی جگہ حرص کا کٹورا رکھا تھا اور چہرے پر آنکھوں کی جگہ لالچ کی پٹیاں بندھی تھیں، انہوں نے اس ملک کو اپنی ہوس کا جی بھر کر نشانہ بنایایہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے چند برسوں بعد ہی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں دشمن کو دو قومی نظریہ بحر ہند میں ڈبونے کا نعرہ لگانے کا موقع مل گیا۔ اس جاں گداز سانحہ کے بعد ہی قوم اور قوم کی گردن پر سوار حکمران طبقے کی آنکھیں کھل جاتیں تو بھی شاید کچھ زیادہ برا نہ ہوا! لیکن پاکستان کا مشرقی بازو کٹنے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کو اس کے ”پوٹینشل“ کے مطابق توانا، مضبوط اور مستحکم عسکری و معاشی قوت بنانے کی کوئی سعی نہ کی گئی،جب ملک کے اندر سیاسی استحکام کی ضرورت تھی تو طالع آزماو¿ں اور بصیرت سے محروم سیاسی بونوں نے اپنی اپنی ہوسِ اقتدار کیلئے پاک دھرتی کو عالمی سامراج کی چراہ گاہ بنادیا۔ عالمی سامراج نے بھی یہاں کھانے سے زیادہ اجاڑنے پر توجہ مرکوز رکھی اور یوں اس زمین پر محبت،پیار اور امن و آشتی کا لکھا گیا صدیوں پرانا ”بیانیہ“ یکسر تبدیل ہوکر رہ گیا۔ مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے نام پر لڑی جانے والی مقدس جنگ کی آڑ میں پنپنے والے کلاشنکوف اور منشیات کے کلچر کی جانب سے آنکھیں مکمل طور پر بند کرلی گئیں، اِس ایک چھوٹی سی غلطی نے آنے والی چار دہائیوں تک ایک پرامن اور مستحکم ملک کا بیانیہ مکمل طور پر تبدیل کرکے رکھ دیا ، اس ”مقدس لڑائی“ میں جھونکی گئی خام افرادی قوت سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد پاکستان میں ”وار لارڈز“ کی شکل میں لوٹی اور ہر وار لارڈ کا اپنا نظریہ ، اپنی سوچ اور اپنا لائحہ عمل تھا، لیکن بحیثیت مجموعی یہ تمام سوچیں، لائحہ عمل اور نظریات ملک کے امن کیلئے تو خطرہ بنے ہی لیکن جلد ہی ریاست کے وجود اور بقاءکیلئے بھی چیلنج بن گئے۔ ان تمام چیلنجز اور خطرات نے پاکستان کو اُس کی حقیقی منزل سے ہی مزید دور ہی نہیں کیا بلکہ پاکستان کو اپنا پورا پوٹینشل بروئے کار لانے کا موقع بھی استعمال نہیں کرنے دیا۔ افغانستان میں جنگ کی جو آگ بھڑک رہی ہے اور جس کی تپش سے آس پاس کے ممالک بھی تپ رہے ہیں،دیکھنے میں تو یہ جنگ محض گزشتہ چار دہائیوں کا ہی قصہ دکھائی دیتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ جنگ اُسی گریٹ گیم کا حصہ ہیں،جو روسی اور برطانوی سلطنتوں کے درمیان وسطی ایشیا پر قبضے کیلئے 1839ءمیں برطانوی جاسوس آرتھر کنولی نے شروع کی تھی۔ آرتھر کنولی کی شروع کردہ یہ جنگ پونے دو سو سال گزرنے کے بعد بھی کسی کنارے نہیں لگی۔ روس کیلئے گرم پانیوں تک پہنچنے کا واحد راستہ افغانستان سے ہوکر براستہ پاکستان ہی گزرتا تھا۔ چالیس سال قبل روس کو گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنااور روکنے کیلئے مزاحمت کا آغاز کرنا کس قدر سود مند تھا یہ یقینا یہ ایک بحث طلب موضوع ہے، لیکن اگراِس جنگ میں پاکستان کا کودنا ناگزیر تھا تو یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ جنگ درست طریقے ، موزوں نظریے اور ٹھوس بنیادوں پر نہیں لڑی گئی۔ امریکی سی آئی اے کی جانب سے یہ مذہبی بنیادوں پر لڑنے کا خاکہ پیش کیا گیا اور پاکستان سمیت عالمِ اسلام کے سرخیل ممالک نے اس خاکے پر عملدرآمد کے بعد کے نتائج سے بے پروا ہوکر ہاں کردی۔ یہ جو آج عالم اسلام میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کی مختلف شکلیں نظرآتی ہیں یہ اسی جنگ کی پیداوار ہیں۔ سامراج مسلمانوں کو اس جنگ میں دھکیل کر خود تو نکل گیا ، لیکن اِ س غلطی کے نتائج آج نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر کی خاک تک ساری امہ بھگت رہی ہے۔سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد سامراج نے عالم اسلام کو دہشت گردی کی جنگ کی لال بتی کے پیچھے لگادیا اور خود ”گریٹ گیم“ کے اگلے مرحلے کا آغاز کردیا۔ پہلے اس گریٹ گیم کا مقصد روس کو گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنا تھا اور اب اِس گریٹ گیم کا بنیادی مقصد چین کو بحیرہ عرب تک آسان رسائی سے روکنا ہے، دوسرے الفاظ میں اب پاک چین اقتصادی راہداری زون اس گریٹ گیم کے نشانے پر ہے۔ پاکستان محض جوہری طاقت ہونے کی وجہ سے ہی سامراج کی آنکھ میں نہیں کھٹکتا بلکہ پاکستان کی اصل طاقت ملک ِ خداداد کاوہ جیوگرافیائی اور اسٹریٹیجک محل و قوع ہے یہی وجہ ہے کہ جب پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ شروع کیا گیا تو پاکستانی اور چینی قیادت نے اسے نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر کیلئے گیم چینجر قرار دیا تھا اور یہ حقیقت بھی ہے کہ یہ منصوبہ پوری طرح رو بہ عمل آنے کے بعد دنیا بھر کی معیشت، سیاست اور سماجیات پر انتہائی دوررس اثرات مرتب کرے گا، یہ منصوبہ شروع ہونے پر بھارت کو یونہی تو جان کے لالے نہیں پڑے ہوئے یہی وجہ ہے کالم نگار کا ایمان ہے کہ اس محل وقوع کی وجہ سے پاکستان اگر کچھ نہ بھی کرے اور بغیر ہاتھ پاو¿ں ہلائے محض پوری ”راہداری“ ہی وصول کرتا رہے تو تھوڑے ہی عرصہ میں یہ ملک دنیا بھر کا مرکز ثقل بن سکتا ہے۔ قارئین کرام!! حکومت اور عسکری قیادت کی مختلف معاملات پر سوچ مختلف ہوسکتی ہے، لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبہ پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر نہیں ہیں تو یہ اُن کی بھول ہے، اس منصوبہ کی کمان بجا طور پر پاک فوج کے ہاتھوں میں ہے،یہی وجہ ہے جنرل راحیل شریف اس منصوبے کے راستے میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ اور سازش کو پوری قوت سے کچل دینے کا عزم ظاہر کرچکے ہیں اور اس حوالے سے ملکِ خداداد کے سپہ سالار اعلیٰ جس طرح روبہ عمل ہیں، اُنہیں وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے بھی مکمل حمایت حاصل ہے۔ جنرل راحیل شریف کے بیرون ملک مختلف دوروں کا مقصد واضح ہے کہ جہاں سے رکاوٹ پیدا ہونے کا خدشہ ہے، اُن کے ساتھ الجھنے کی بجائے حقائق انہیں پہلے ہی پیار سے سمجھادیے جائیں۔ اسی طرح جو دانشور اپنی ذہنی اختراع کو خبروں کا لباس پہنا کر شور مچا رہے ہیں کہ جوڈشیل کمیشن کی رپورٹ کے بعد حکومت ”فرعون“ بن جائے گی ، ان کیلئے عرض ہے کہ حکومت کوئی الجھاو¿ پیدا کرے گی نہ ہی اس مرحلے میں کسی پیچیدگی میں اُلجھنا پسند کرے گی۔ میاں نواز شریف کے گیم پلان کا پہلا نکتہ یہی ہے!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38