ہائی انرجی فزکس یا ذراتی طبیعات، طبیعات کی وہ شاخ ہے جس میں مادہ (Matter)اور شعاع ریزی (Radiation)کے بنیادی اجزا کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور ان کے مابین اثر انداز ہونے والی مختلف قوتوں سے آگاہی حاصل کی جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میںہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کون سے بنیادی ذرات Elementary Particles)) ہیں جن کے باہم ملاپ سے مادہ اور یہ کائنات وجود میں آئی اور وہ کون سی قوتیں ہیں جو کائنات کے وجود اور توازن کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ قارئین، یہ شاخ طبیعات کی چند مشکل ترین شاخوں میں سے ایک ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات کی چھپی ہوئی حقیقتوں کو پالینا اتنا آسان نہیں ہے۔ جب ہم مادہ کے بنیادی اجزا کی بات کرتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے یونانی فلسفیوں کا نام سننے کو ملتا ہے،جنہوں نے سب سے پہلے اس میدان میں اپنی آراء قائم کیں اور بعد میں آنے والے محققین نے ا نہیں تجربات کی مدد سے پرکھا۔عظیم یونانی فلسفی ارسطو کا خیا ل تھا کہ تمام مادہ بنیادی طور پر صرف چار چیزوں یعنی ہوا، مٹی ، پانی اور آگ سے مل کر بنا ہے۔ اس کے برعکس دی مقراطیس (Democritus) کے عالمی نظریہ جوہری توانائی کے مطابق مادہ کوچھوٹے اجزا میں تقسیم کیا جاسکتا ہے اور اس سلسلے کا سب سے چھوٹاذرہ ایٹم کہلاتا ہے، جس کا لغوی مطلب ہے ناقابل تقسیم۔ تاہم اس بات کو سمجھنے میں تقریباََ 2000 سال سے زیادہ کا عرصہ لگا اور بالآخر سائنسدان 1932ءمیں مختلف تجربات کی مدد سے اس نتیجے پر پہنچے کہ ایٹم ایک قابلِ تقسیم ذرہ ہے، جو بنیادی طور پر ایک مرکزے پر مشتمل ہوتا ہے جسے ہم نیوکلئیس (Nucleus)کہتے ہیں۔ یہ نیوکلئیس دو ذرات پروٹان(Proton) اور نیوٹران (Neutron)سے مل کر بنا ہے جبکہ وہ ذرہ جو اس مرکزے کے گرد ایک خاص مدار میں موجود ہوتا ہے، الیکٹران (Electron)کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دور کو طبیعات کی تاریخ میں کلاسیکی دور کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد وسطی دور شروع ہوتا ہے جس میں ان ذرات کا کھوج لگانے والے آلات اور ایکسلریٹرزمیں انقلابی تبدیلیاں آئیں اور سائنسدانوں کو تجربات کی مدد سے مادے کے اندر زیادہ گہرائی میں جھانکنے کا موقع ملا۔آج ہزار ہا برس کی تحقیق اور تجربات کے بعد سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مادہ دراصل دو طرح کے ذرات سے مل کر بنا ہے جنہیں ہم کوارکس ((Quarks اور لیپٹان (Leptons) کہتے ہیں۔ ان دونوں کی چھ قسمیں ہیں، اور اِن کو اِن کی کمیت، برقی بار اور دوسری خصوصیات کی بنا پر مختلف گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ذراتی فزکس /طبیعات جہا ں ایک طرف مادے کی بنیادی اکایﺅں (Fundamental Entities)کو تلاش کرتی ہے تو دوسری طرف یہ کائنات میں کارفرما فطری قوتوں (Forces of Nature) پر بھی سیر حاصل بحث کرتی ہے۔ دراصل پچھلی صدی میں ذراتی طبیعات میں کام کرنے والے سائنسدانوں نے اس کی باریکیوں کو سمجھنے کے لئے مختلف نظریات پیش کئے، جن میں سب سے کامیاب، اہم اور قابل اعتمادنظریہ سٹینڈرڈ ماڈل (Standard Model)یا معیاری سانچہ کہلاتا ہے، جو کائنات میں موجود عناصر اور قوتوں کے ما بین باہمی ربط کی انتہائی کامیابی سے وضاحت کرتا ہے۔اس نظریئے کے مطابق کائنات میں چار اقسام کی قوتیں پائی جاتی ہیں، جن میں سب سے اول اور قوی، مضبوط مرکزی قوت (Strong Nuclear Force) کہلاتی ہے۔ یہ صرف ایٹم کے مرکزے میں پائی جاتی ہے اور اس میں موجود بنیادی ذرات یعنی کوارکس کو باندھ کر رکھتی ہے اور انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونے دیتی۔ اس کا محیط ایک ملی میٹر کا دس اربواں حصہ ہے جو مجموعی طور پر ایٹم کے مرکزے کا قطر ہے۔ پاکستان اس میدان میں دوسرے اقوام کے شانہ بشانہ اپنا کردار بخوبی نبھا رہا ہے۔ اِس مقصد کے لئے پنجاب یونیورسٹی ، لاہو ر میں سنٹر فار ہائی انرجی فزکس کا قیام1982ء میں عمل میں لایا گیا، جو پاکستان میں اس شعبے کی ترقی اور فروغ کے لئے کام کر رہا ہے۔ جوہری تحقیق کی یورپی تجربہ گاہ ”سرن“ کے ساتھ کام کرنے والے زیادہ تر سائنسدانوں کا تعلق نیشنل سنٹر فار فزکس ، اسلام آباد اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے ہے۔ پاکستانی سائنسدان، خواہ ان کا تعلق کسی ادارے سے ہو، اس میدان میں اپنی قابلیت اور مہارت کا لوہا منوا رہے ہیں۔ ہماری نوجوان نسل کوبھی چاہئے کہ وہ اس میدان میں آگے آئے اور تعلیم و تحقیق کے اس دور میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائے اور اس میدان میں نئی جہتیں متعارف کروائے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024