ہمارے لئے قرآن پاک کا ترجمہ سیکھنا کیوں ضروری ہے؟ 


تبلیغ…ایم عجائب ملک 
ajaibmalik@gmail.com

جب اللہ کے فرشتے حضرت جبرائیلؑ  کے ذریعے اللہ کے آخری نبی ؐ پر وحی نازل ہوئی تو جبرائیلؑ نے کہا کہ  " اقرا باسم ربک الذی خلق۔   خالق انسان  مالم یعلم "۔   "اے نبیؐ اپنے رب کے نام سے پڑھ !۔۔۔  جس نے تجھے پیدا کیا اور انسان کو بھی  پیدا کیا!  اور اُسے وہ کچھ سکھایا  جو  وہ نہیں جانتا تھا"۔ قرآن پاک عام کتاب کی طرح کوئی انسانی تصنیف نہیں ہے بلکہ اللہ ربّ العزّت نے ٹھہر ٹھہر کر اسے کم و بیش تیئس سال کے عرصے میں اپنے رسول ؐ کے سینے میں اتارا گیا اور اس کے مضامین کو خاص حکمت کے تحت بار بار دھرایا گیا ہے  ہمارے لئے یہ بات سمجھنے کیلئے بہت ضروری ہے کہ عام تحریری انداز کے برعکس قرآن پاک کا انداز تقریری ہے اور اسکا موضوع "انسان" ہے ۔ حدیث نبویؐ  کے مطابق مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم میں سے بہتر یں وہ انسان ہے جو خود قرآن پاک پڑھے اور دوسروں کو پڑھائے۔۔۔ قرآن پاک کو ناظرہ پڑھا جائے حفظ کیا جائے یا ترجمے اور تفسیر سے پڑھا جائے ہر طریقے کی اپنی اہمیت اور اپنا اپنا اجر ہے ۔ قرآن پاک کے معاملے میںہم عجمی لو گ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہم جتنے بھی بے عمل ہوں قرآن کی محبت کوایک مسلمان کے دل  سے نکالا نہیں جا سکتا  ۔ ہم آج بھی قرآن پاک اور مسجد کے قریب سے گزرتے ہوئے اسے عظمت کا نشان سمجھتے ہیں اور اپنی پشت کے سائے کو  بھی اس سے دور رکھتے ہیں لیکن۔۔۔ یہی محبت ہمیں اس بات پر بھی سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ جب قرآن پاک کو ہدایت ، پوشیدہ حکمتوں کی بنیاد اور انسان اور خالق ِ انسان کے درمیاں ایک رابطے کا ذریعہ قرار دیاگیا ہے تو پھر اس کے پیغام کو سمجھنے کے لئے یہ بات از حد ضروری ہے کہ ہم اسکی زبان کو بھی سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک ہی میں بار بار فرمایا ہے ۔ ولقد یسرنا القرآن لذکرفھل من مدکرہ۔ اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کیلئے آسان کر دیا ہے ۔اور ہے کوئی سمجھنے والا ؟   آج ہم اپنی ضروریات کے لیے انگریزی اور دوسری زبانیں تو سیکھ لیتے ہیں لیکن قرآن کی زبان یعنی عربی کی طرف ہم توجہ نہیںدیتے۔ بڑے بڑے علمائے کرام کی موجودگی میں نہ جانے یہ بات کیوں مشہور کر دی گئی کہ قرآن پاک کے ترجمہ کو سمجھنے کیلئے اس کے ساتھ دیگر کئی علوم مثلاََ صرف و نحو، فقہ اور منطق وغیرہ کو سیکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس غلط فہمی نے ہمیں قرآن پاک سے بہت دور رکھا  ۔۔ ۔ لیکن آج ہمیں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا شکر بجا لانا چاہیے کہ ہماری کوتاہیوں اور خرابیوں کے باوجود پاکستان،  برصغیر اور دنیا بھر کے ممالک میں قرآن پاک کو ناظرہ ، حفظ، ترجمے اور تفاسیر کے ساتھ پڑھنے کی سہولیات موجودہیں ۔ اگرچہ ایک تعلیم یافتہ استاد کی رہنمائی میں پڑھنے کا کوئی نعم البدل نہیں لیکن پر نٹنگ  اور الیکٹرانک میڈیا کی مر ّ وجہ سہولتوں نے ترجمہ اور تفاسیر کے شعبے میں بہت سی آسانیاں پیدا کر دی۔ آج ہمارے ہاں ایسی سہولتیں موجود ہیں جس سے طالب علم مختلف ایپس (Apps)کے زریعے چشم زدن میں ہر آیت اور سورت کو ڈھونڈ سکتے ہیں۔  موجودہ زمانے میں بہت سے علما ئے کرام نے لفظی ترجمہ کے ساتھ بامحاورہ تراجم کی ایسی سہولتیں پہنچا دی ہے جس سے ہر طالب علم اور علم کی جستجو رکھنے والا شخص بذات خود ترجمے کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔
جہاں تک قرآن پاک کے مختلف تراجم کا تعلق ہے قیام پاکستان سے پہلے فارسی زبان میں حضرت شاہ ولی اللہؒ  کا ترجمہ، اردو میں  شاہ عبدالقادرؒ  ، شاہ رفیع الدین ؒ ، مولانا محمود الحسنؒ ، مولانا اشرف علیؒ  اور مولانا فتح محمد جالندھری  ؒ ، مولانا شبیر احمد عثمانی  ؒ اور دیگر بہت سے علمائے کرام کے تراجم لوگوں کی  بنیادی علمی ضروریات کو پورا کرتے رہے ہیں۔۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا سید ابواعلیٰ مودودیؒ کی لکھی ہوئی تفہیم القرآن بہت ہی قابل قدر ہے لیکن اکثر اوقات مولانا مودودی ؒ کی دینی اور سیاسی شخصیت کو آپس میں گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے بحیثیت انسان ایک مفسر سے یقینا  غلطی ہو سکتی ہے اور مترجمین اور مفسرین اپنی غلطیوں سے رجوع کرتے رہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کو جب زندگی میں مشکل حالات کے تحت جیل جانا پڑا اور وہ انسانی فطرت کے تحت اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ ہوئے توتفہیم القرآن کے مطالعے نے ان کی زندگیوں کا رخ یکسر موڑ دیا۔اسلئے  علمی ا عتبار سے اس کی افادیت دنیا بھر میں مسلّم ہے۔ مولانا مودودی ؒ نے تفہیم القرآن کے مقدمے ہی میں لکھا تھا کہ تفہیم کا بنیادی مقصد اس کے اثرات کو تعلیم یافتہ حضرات کے علاوہ ایک عام اور کم تعلیم یافتہ تعلیم کے حامل افراد تک بھی پہنچانا ہے جہاں تک دیگر تراجم اور تفاسیر کا تعلق ہے ایک سے ایک بڑھ کر علمائے کرام کی اعلیٰ تفاسیر موجود ہیں ۔۔ لیکن اس مضمون میں ہمارا مقصد ایسے آسان تراجم کا ذکر ہے جس سے ایک عام طالبعلم بھی قرآن پاک کے ترجمے کو سمجھ سکے جہاں تک ہماری محدود معلومات کا تعلق ہے حالیہ تاریخ میں مولانا نذرؒ صاحب اور مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی اور مولانا فتح محمد خان جالندھری کا لفظی اور بامحاورہ  ترجمہ اور مختلف رنگوں میں قرآن آسان فہم تحریک  لاہور کا ترجمہ آج کے زمانے کی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کرتا ہے ہر لفظ کے نیچے ایک ایک لفظ کا انفرادی ترجمہ اور اس کے نیچے دوسری سطر میں بامحاورہ ترجمے سے ایک عام طالب علم یا شخص بھی  اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ موجودہ دور کے مختلف مکتبہ فکرکے علما ئے کرام نے تراجم اور تفاسیر کی خدمات سر انجام دی ہیں ہر قاری اپنے مکتبہ فکر کے علما ئے کرام کے ترجمے سے مستفید ہو سکتا ہے مثال کے طور پر اگر اھدنا الصراط المستقیم 
کا ترجمہ کیا جائے تو …یا اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔  دوسرا…ہمیں سیدھی راہ رکھا۔  اور تیسرا۔ ہمیں سیدھا راستہ بتا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن مفہوم سب کا ایک ہی ہو گا۔ اس لئے عام لوگوں کی اس غلط فہمی کا ازالہ بہت ضروری ہے کہ کہیں غلط ترجمے سے ہمارا ایمان ہی ضائع نہ ہو جائے ۔۔ تمام علمائے کرام کے تراجم صحیح ہوتے ہیں  ہیں لیکن بعض جگہ مفسرین کی تشریح مختلف ہو سکتی ہے لیکن اس کے بعد پھر بھی اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے تو  ایک قاری کو اپنے پسند کے ترجمے کے بعد کسی دوسرے عالم کا بھی ترجمہ ضرور پڑھنا چاہئے اور اگر کہیں مشکل پیش آئے تو علما ئے کرام کی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایک عالم چاہے دیوبندی ہو ،  بریلوی  ہو،  اہلحدیث ، تنظیم اسلامی ، جماعت اسلامی  یا منھاج القرآن کو ہو ، ہماری نظر میں قابل احترام ہونا چاہے۔قرآن پاک اور دین کو سمجھنے کے لئے ہمیں اپنے آپ کو فرقوں اور مسلکی پابندیوں سے بلند ہو کر اپنے نکتہ نظر میں وسعت پیدا کرنی چاہے یہ بات دلچسپ ہے کہ دیوبند اور بریلی۔۔ بھارت کے دو شہرہیں اوراُن ہی کی نسبت سے وہاں دو دینی مدرسے قائم ہوئے جن کے استاد اور طلبا دونوں پاک و ہند اور برصغیر میں موجود ہیں لیکن ہم نے اپنے آپکو دیوبندی اور بریلوی کی بحث میں الجھا دیا ہے حالانکہ دونوں حنفی مکتبہ فکر کے حامل ہیں اسلئے ہمیں اس بات کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ کسی شخصیت یا عالم نے کیا کہا ہے ؟ اور یہ نہیں دیکھنا چاہے کہ… کس نے کہا ہے !   آپس میں بحث مباحثہ اور جھگڑے کی بجائے ہمیں اچھی اچھی دینی اور اصلاحی کتابوں کا مطالہ کرنا چاہیے۔
اگر تعلمی اداروں میں عربی زبان کو بتدریج وسعت دی جائے تو قرآن پاک کو سمجھنے کے لئے یہ بہت ہی اہم خدمت ہو گی اس لئے ہمیں قرآن پاک کے ترجمے کے ساتھ ساتھ عربی زبان کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔اسلئے قرآن پاک کے ترجمے کے شوقین حضرات کیلئے ضروری ہے کہ اگر انہیں کوئی استاد میسر نہ بھی ہو تو انہیں گھر ، مسجد اور مدرسہ میں موجو د تراجم کی  بنیاد پر انھیں قرآن پاک کا ترجمہ ضرور  سیکھنا چاہئے۔ عام طور پر جب بھی کوئی کام کرنے کا ارادہ ہو تو پہلا قدم اٹھانا زیادہ مشکل ہوتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ انسان کیلئے آسانی کے راستے کھول دیتا ہے اب لوگ الیکٹرانک میڈیا اور یوٹیوب وغیرہ کے استعمال سے واقف ہیں انہیں اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے تھوڑی  سی کوشش کے بعد انہیں کہیں نہ کہیںسے صحیح راستہ مل سکتا ہے۔ بعض لوگوں نے قرآن پاک کے تراجم سکھانے کیلئے اپنی زندگیاں صرف کر دی ہیں۔۔۔ ہمیں نئی ٹیکنالوجی کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس کی بدولت یوٹیوب اور اسی طرح کے دوسرے زرائع سے دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود سہولتوں سے فائدہ اٹھا کر اپنی ذات اور معاشرے کو ان سے مستفیض کر سکتے ہیں اس سلسلہ میں ڈاکٹر عامر سہیل اور  الھدیٰ کے ادارے کا نام بھی اہم ہے ۔ حافظ نذرؒ  کا لفظی اور با محاورہ ترجمہ پاکستان کی مختلف جیلوں میں قیدیوں کی اصلاح کے لئے 
رائج ہے۔۔۔ اسی طرح معمولی سی تعلیم کے حامل حضرات بھی مختلف رنگوں کی بنیاد پر قائم کئے گے قرآن آسان فہم تحریک کے مولانا سید شبیر احمد  ؒ کے ترجمے سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ اسی ادارے نے رنگوں کی بنیاد پر انگریزی زبان میں بھی ترجمے کا اہتما م کیا ہے جو دنیا بھر میں انگلش زبان بولنے حضرات اور خصوصاََ  بچوں کے لئے ایک ا ہم سہولت ہے۔ ہرمسلمان اور خصوصاََ نوجوانوں کو ترجمے اور تفسیر کو پڑھنے کی جدوجہد شروع کرنی چاہئے ۔ ترجمے ، تفسیر اور گرامر کے علاوہ مولانا عبد الرحمن کیلانی  ؒ کی مرتب کردہ تالیف "مترادفات القرآن" کے نام سے ایک خوبصورت کتاب ہے جو ہم معنی یا ایک ہی طرح کے الفاظ کے لغوی معنی کو واضح کرتی ہے۔ ہم نے اپنی محدود معلومات کی بنیاد پر یہ باتیں خلوص نیت سے تحریر کی ہیں اور ہماری حیثیت ایک عام طالب علم کی طرح ہے۔کئی دیگر ادارے بھی پاکستان اور دنیا کے مختلف مقامات پر قرآن پاک کو پڑھانے اور ترجمے اور تفاسیر کا کام کر رہے ہیں اسلئے ہم اپنے قارئین کے شکر گزار ہوں گے کہ وہ ہماری محدود معلومات میںمزید اصافہ کریںاور اگر اس سلسلہ میں ہم سے کوئی غلطی ہوجا ئے تو ہمیں اللہ کیلئے معاف کردیں۔ہر شہر میں کتابوں کی بڑی بڑی دکانوں پر اچھی درسی اور ادبی کتابوں کے ساتھ قرآن پاک کے ترجمے بھی موجود ہوتے ہیں ایسے بکسٹال اور حضرات سے بھی ان معاملات میں بھی )ٖ(: watapp 0300-5259936 رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...