Waqt News
Wednesday | January 20, 2021
  • صفحہ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
    • قومی
    • ملتان
    • بین الاقوامی
    • کاروبار
    • دلچسپ و عجیب
    • کھیل
    • جرم و سزا
    • تفریح
    • لاہور
    • اسلام آباد
    • کراچی
  • متفرق شہر
    • آزادکشمیر
    • پشاور
    • حافظ آباد
    • سیالکوٹ
    • جھنگ
    • کوئٹہ
    • شیخوپورہ
    • سرگودھا
    • ساہیوال
    • گوجرانوالہ
    • گجرات
    • میانوالی
    • ننکانہ صاحب
    • وہاڑی
  • قلم اور کالم
    • کالم
    • اداریہ
    • مضامین
    • ایڈیٹر کی ڈاک
    • نوربصیرت
    • ادارتی مضامین
    • سرے راہے
  • پرنٹ ایڈیشن
    • آج کا اخبار
    • e - اخبار
  • کورونا وائرس
  • Magazines
    • Sunday Magazine
    • Mahnama Phool
    • Nidai Millat
    • Family Magazine
  • News Paper & TV Channel
    • Waqt TV
    • The Nation
  • NAWAIWAQT GROUP
Nawaiwaqt
  • صفحہ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
    • قومی
    • ملتان
    • بین الاقوامی
    • کاروبار
    • دلچسپ و عجیب
    • کھیل
    • جرم و سزا
    • تفریح
    • لاہور
    • اسلام آباد
    • کراچی
  • متفرق شہر
    • آزادکشمیر
    • پشاور
    • حافظ آباد
    • سیالکوٹ
    • جھنگ
    • کوئٹہ
    • شیخوپورہ
    • سرگودھا
    • ساہیوال
    • گوجرانوالہ
    • گجرات
    • میانوالی
    • ننکانہ صاحب
    • وہاڑی
  • قلم اور کالم
    • کالم
    • اداریہ
    • مضامین
    • ایڈیٹر کی ڈاک
    • نوربصیرت
    • ادارتی مضامین
    • سرے راہے
  • پرنٹ ایڈیشن
    • آج کا اخبار
    • e - اخبار
  • کورونا وائرس
Font

تازہ ترین

  • مایا علی کے فالورز کی تعداد 5 ملین ہوگئی
  • پنجاب کے میدانی علاقوں اور بالائی سندھ میں دھند چھائے رہنے کا امکان
  • وزیراعظم عمران خان کا وانا کیلئے تھری اور فور جی سروس شروع کرنے کا اعلان
  • ہٹلر کی کتاب می کامپ پہلی بار پولینڈ میں شائع کی جائےگی
  • جاپان نے کورونا ٹیسٹ کرنے والے روبوٹ تیار کر لیے

کرونا سے نجات کب؟

Apr 03, 2020 3:38 PM, April 03, 2020
شیئر کریں:
Share
Tweet Google+ Whatsapp
کرونا سے نجات کب؟

ؒکرونا کی وباءنے پاکستان ہی نہیں دُنیا بھر میں جو ہمہ جہتی بحران پیدا کیا ہے اسے سنبھالنے کے لئے نجانے کتنے برس درکار ہوں گے۔گھروں میں بند ہوئے لوگوں کو ذاتی حوالوں سے چند سوالات پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ٹھوس سوالات پر مرکوز ہوئی توجہ ہی بالآخر ایسے امکانات دریافت کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے جو روزمرہّ زندگی بحال ہوجانے کے بعد ہمیں بھرپور توانائی سے ان کے حصول کی جانب راغب کرسکے۔

طبی ماہرین کے لئے فی الوقت اہم ترین سوال کرونا وائرس کا علاج ڈھونڈنا ہے۔ کوئی ایسی ویکسین جو چیچک،خسرہ اور پولیو جیسے امراض کے تدارک کی طرح کرونا کی مدافعت بھی یقین بناسکے۔مو¿ثر اور یقینی علاج کی دریافت تک خلقِ خدا کو محفوظ بنانے کے لئے کرفیو نما لاک ڈاﺅن کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی باقی نہیں رہا۔امریکی صدر نے مجوزہ لاک ڈاﺅن کی شدت سے مخالفت کی۔کرونا کو ”نزلہ زکام“ ہی کی ایک قسم قرار دیتا رہا۔ان لوگوں کو اس ضمن میں مسلسل حقارت سے اپنی زد میں لیتا رہا جو اس کی دانست میں کرونا کے نام پر لوگوں کو ”خوفزدہ“ بنارہے تھے۔ اس کی رعونت بالآخر امریکہ میں کرونا کے باعث ہوئی ہلاکتوں کی تعداد میں ہولناک اضافے کا باعث ہوئی۔ وہ بضد تھا کہ ایسٹر کا تہوار گزرجانے کے بعد امریکی شہروں کو 13اپریل سے ”کھول“ دیا جائے گا۔موذی وباءنے لیکن اسے بے بس بنادیا۔ٹی وی کیمروں کے روبرو مگر وہ اب بھی شرمسار ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔وائٹ ہاﺅ س میں قائم بریفنگ روم میں بیٹھ کر روزانہ میڈیا سے گفتگو کرتا ہے اور اس امر پر شا داں کہ اس کی Media Appearanceریٹنگز کے نئے ریکارڈ قائم کررہی ہے۔وطنِ عزیز میں عمران خان صاحب کسی حد تک ٹرمپ جیسا رویہ اپنائے رہے۔اندھی نفرت وعقید ت سے بالاتر ہوکر سوچیں تو لاک ڈاﺅن کی وجہ سے پاکستان کے لاکھوں نہیں ایک کروڑ سے زیادہ افراد روزگار نہ ہونے کے سبب فاقہ کشی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ان کی پریشانی کی فکر بھی ضروری ہے۔وزیر اعظم اس کے بارے میں متفکر ہیں۔میں ان کی فکر کو ”رعونت“ یا ’لاعلمی“ پکارنے کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔وزیر اعظم کی تشویش کے باوجود وفاقی حکومت پاکستان میں لاگو ہوئے لاک ڈاﺅن کو 14اپریل تک بڑھانے کو مجبور ہوئی۔ ہمارے چسکہ فروش اب یہ کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ لاک ڈاﺅن کی مدت بڑھانے اور اسے سختی سے لاگو کرنے کا فیصلہ ”کس“ نے کیا ہے۔عام حالات میں شاید یہ سوال اٹھانا ضروری تھا۔ہم ان دنوں مگر ایک سنگین بحران کا سامنا کررہے ہیں۔اس بحران کی شدت کا عالمی تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے یہ اصرار کرنا لازمی ہے کہ فی الوقت لاک ڈاﺅن کی مدت بڑھانے اور اسے سختی سے لاگو کرنے کے علاوہ کوئی راستہ ہی موجود نہیں تھا۔لاک ڈاﺅن کی اہمیت سمجھنے کے لئے نیویارک ٹائمز میں چھپی ایک خبر کا ذکر ضروری ہے۔اس خبر کے مطابق امریکہ میں بخار کی پیمائش کرنے والے ایک جدید تھرمامیٹر بیچنے والی کمپنی نے جو آلہ مارکیٹ کیا ہے اس کے ذریعے حاصل ہوئی معلومات ایک ماسٹر کمپیوٹر میں ازخود جمع ہوجاتی ہیں۔حال ہی میں ابھرے اعدادوشمار نے واضح انداز میں یہ ثابت کردیا ہے کہ کامل لاک ڈاﺅن کی زد میں آئے امریکی شہروں میں سماجی دوری کی وجہ سے لوگوں میں عمومی بخار کی تعداد میں حیران کن حد تک کمی ہورہی ہے۔ان اعدادشمار کی بدولت ہم یہ فرض کرسکتے ہیں کہ سماجی دوری افراد میں فقط کرونا ہی نہیں دیگر بیماریوں کے خلاف بھی فطری طورپر موجود مدافعانہ نظام کو توانائی کے ساتھ برقرار رکھنے میں مددگارثابت ہورہی ہے۔پریشان کن حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ اداسی اور پریشانی انسانوں میں موجود فطری مدافعت کو کمزور تر بناتی ہے۔دیہاڑی اور تنخواہ سے محروم ہوئے لاکھوں پاکستانی راشن کی عدم دستیابی کی بدولت حواس باختہ ہورہے ہوں گے۔خدانخواستہ ان کی پریشان کے مداوے کے ٹھوس ذرائع میسر نہ ہوئے تو کرونا سے محفوظ رہنے کے باوجود وہ فطری مدافعتی نظام کمزور ہوجانے کے باعث دیگر بیماریوں کاشکار بھی ہوسکتے ہیں۔گھروں میں بیٹھ کر اپنے ٹیلی فونوں پر میسر فیس بک یا ٹویٹر کے ذریعے سیاسی مخالفین کی بھد اُڑانے کے بجائے ہم سب کو یکسو ہوکر ایسی راہیں تلاش کرنا ہوں گی جو حکومت کو لاک ڈاﺅن کے باعث بے بس ولاچار محسوس کرتے دیہاڑی داروں اور کم آمدنی والوں کو تشفی پہنچانے میں مددگارثابت ہوں۔محض ایک رپورٹر ہوتے ہوئے میں شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی فہرست میں موجود گھرانوں کو جلدازجلد12ہزار روپے نقد رقم کی صورت فراہم کردئیے جائیں تو کم از کم50لاکھ گھرانوں کی فوری مدد ہوجائے گی۔وہ حکومت کی فراہم کردہ رقوم سے اپنے محلوں یا قصبات میں قائم کریانے اور سبزی کی مقامی دوکانوں سے خریداری کریں گے تو یہ دھندے چلانے والوں کی آمدنی بھی جاری رہے گی۔نقد رقم کے علاوہ کم از کم تین ماہ تک ان گھرانوں کو بجلی اور گیس کے بل بھی نہ بھیجے جائیں جو عموماََ ہر ماہ ان مدوں میں تین سے پانچ ہزار روپے ادا کرتے ہیں۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹر ہوئے گھرانوں کو فوری ریلیف فراہم کرنے کے ساتھ ہی ساتھ دیگر گھرانوں کی نشان دہی کا عمل بھی آج کے Digitalدور میں تیز رفتاری سے مکمل کیا جاسکتا ہے۔ انہیں بھی Cash Transferکے ذریعے گھر گھر راشن پہنچانے والے تقریباََ ناممکن نظر آتے نظام کی ممکنہ قباحتوں سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔کرونا کی وجہ سے نازل ہوا کڑا وقت ”فروعات“ کو نظرانداز کرنے کا تقاضہ کرتا ہے۔وباءکے موسم میں بھی لیکن پاکستان ہی نہیں دُنیا بھر کے بے تحاشہ لوگ اپنے دلوں میں موجود تعصبات کو سفاکانہ بے رحمی سے اجاگر کرتے نظر آرہے ہیں۔ہمارے ہاں کئی ہفتوں تک ایران سے آئے ”زائرین“ کو کرونا کا واحد کیرئیر بناکر ان افراد کی ”نشان دہی“ کا تقاضہ ہوتا رہا جنہوں نے انہیں تفتان تک محدود رکھنے کے بجائے ملک بھر میں پھیل جانے کی ”سہولت“ فراہم کی۔زائرین کی آمد سے جڑے سوالات اپنی جگہ برقرار تھے تو تبلیغی جماعت کو بھی غصے کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ان دونوں موضوعات کے ضمن میں سوشل میڈیا پر جاری بحث نے محض فرقہ وارانہ منافرت ہی بھڑکائی۔ کرونا وائرس سے متعلق ٹھوس معلومات تعصب بھرے شوروغوغامیں لیکن گم ہوگئیں۔ لاک ڈاﺅن کی اہمیت اور اس کے دوران دیہاڑی داروں اور کم آمدنی والوں کی مشکلات پر توجہ مرکوز نہ رہی۔پاکستان کے برعکس بھارت کا سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ ریگولر میڈیا اور اس کے کئی جغادری صحافی ان دنوں تبلیغی جماعت کو کئی حوالوں سے اپنے ملک میں کرونا پھیلانے کا حقیقی ذمہ دار ٹھہرانا شروع ہوگئے ہیں۔دل میں نظام الدین اولیاءکے مزار سے ملحق بستی میں اس جماعت کا مرکز ”کرونا کا گڑھ“ بناکر دکھایا گیا جس کے خلاف سرکار سے ویسے ہی حملے کا تقاضہ ہوا جو ”دشمن“ کی بستیوں کو نیست ونابود کرنے کے لئے اختیار کیاجاتا ہے۔تبلیغی جماعت کے خلاف نفرت بھڑکانے کے لئے یہ الزام بھی تواتر سے لگایا جارہا ہے کہ القاعدہ جیسی تنظیموں کو مبینہ طورپر ”رضا کار“ اسی جماعت کی صفوں سے دستیاب ہوئے۔ٹھوس اعدادوشمار اس الزام کو صراحت سے جھٹلاتے ہیں۔اسلام اور مسلم دشمنی مگر تبلیغی جماعت کو نفرت کا نشانہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہے۔تبلیغی جماعت کا ذکر ہوتا ہے تو کئی جغادری صحافی یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ یہودیوں میں بھی بنیاد پرستی کے حوالے سے معروف ایک Harediفرقہ ہے۔ اس فرقے کے لوگ جدید ریاست کے ”سیکولر“ نظام کو تسلیم نہیں کرتے۔کرونا کی وجہ سے لاگو ہوئے لاک ڈاﺅن کو انہوں نے مسترد کردیا۔یہودی مذہب کو ”تحفظ“ دینے پر قائم ہوئے اسرائیل میں لیکن ان کی مخصوص بستیوں میں کرونا کی زد میں آئے لوگوں کی تعداد اس ملک میں اُبھری اوسط سے چار سے آٹھ گنا زیادہ نظر آئی۔کٹر اور متعصب نیتن یاہو کی حکومت بالآخرمجبور ہوگئی کہ ریاستی تشدد کے جارحانہ انداز میں استعمال کے ذریعے انہیں لاک ڈاﺅن کا احترام کرنے کو مجبور کرے۔

 اشیاء کی من مانی قیمتیں وصول کرنیوالے ہمدردی کے مستحق نہیں:کمشنر 

امریکہ میں Evangelicalفرقہ بھی بہت متعصب ہے۔اس کے رہ نما Jerry Falwellنے بہت رعونت سے اعلان کیا کہ ٹرمپ کے سیاسی مخالفین کرونا کے بہانے لوگوں کو خوفزدہ بنارہے ہیں۔ان لوگوں کی یونیورسٹیاں اور کالجز بھی ہیں۔ Jerryنے انہیں کھولے رکھنے پر اصرار کیا۔امریکی انتظامیہ ابھی تک اس کے آگے سرنگوں نظر آرہی ہے۔غالباََ اس فرقے کی جانب سے پھیلائے تعصب کی بنا پر امریکہ میں وبائی امراض کے مستند ماہر ڈاکٹر انتھونی فوچی کو اب سکیورٹی مہیا کرنا پڑی ہے۔ یہ ماہر ٹرمپ کے پیچھے کھڑا نظر آتا تھا۔ امریکی صدر جب کرونا کو ”بہادری“ سے نظرانداز کرنے پر زور دیتا تو فوچی کے چہرے پر اُکتاہٹ اور بیزاری والی مسکراہٹ نمودار ہوجاتی۔ Fauciکے چہرے پر نمایاں ہوئے تاثرات کو امریکی میڈیا نے ڈرامائی انداز میں اپنی سکرینوں پر دکھایا۔بعدازاں وہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے التجا کرتا رہا کہ کرونا کی وباءکو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔امریکہ کے مسیحی انتہاپسندوں نے مگر حقائق بیان کرنے والے اس ماہر کو ”واجب القتل“ بنادیا ہے۔

سالانہ  ترقیاتی منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں:ڈی سی حافظ آباد

کرونا سے نجات کب؟

ؒکرونا کی وباءنے پاکستان ہی نہیں دُنیا بھر میں جو ہمہ جہتی بحران پیدا کیا ہے اسے سنبھالنے کے لئے نجانے کتنے برس درکار ہوں گے۔گھروں میں بند ہوئے لوگوں کو ذاتی حوالوں سے چند سوالات پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ٹھوس سوالات پر مرکوز ہوئی توجہ ہی بالآخر ایسے امکانات دریافت کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے جو روزمرہّ زندگی بحال ہوجانے کے بعد ہمیں بھرپور توانائی سے ان کے حصول کی جانب راغب کرسکے۔

طبی ماہرین کے لئے فی الوقت اہم ترین سوال کرونا وائرس کا علاج ڈھونڈنا ہے۔ کوئی ایسی ویکسین جو چیچک،خسرہ اور پولیو جیسے امراض کے تدارک کی طرح کرونا کی مدافعت بھی یقین بناسکے۔مو¿ثر اور یقینی علاج کی دریافت تک خلقِ خدا کو محفوظ بنانے کے لئے کرفیو نما لاک ڈاﺅن کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی باقی نہیں رہا۔امریکی صدر نے مجوزہ لاک ڈاﺅن کی شدت سے مخالفت کی۔کرونا کو ”نزلہ زکام“ ہی کی ایک قسم قرار دیتا رہا۔ان لوگوں کو اس ضمن میں مسلسل حقارت سے اپنی زد میں لیتا رہا جو اس کی دانست میں کرونا کے نام پر لوگوں کو ”خوفزدہ“ بنارہے تھے۔ اس کی رعونت بالآخر امریکہ میں کرونا کے باعث ہوئی ہلاکتوں کی تعداد میں ہولناک اضافے کا باعث ہوئی۔ وہ بضد تھا کہ ایسٹر کا تہوار گزرجانے کے بعد امریکی شہروں کو 13اپریل سے ”کھول“ دیا جائے گا۔موذی وباءنے لیکن اسے بے بس بنادیا۔ٹی وی کیمروں کے روبرو مگر وہ اب بھی شرمسار ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔وائٹ ہاﺅ س میں قائم بریفنگ روم میں بیٹھ کر روزانہ میڈیا سے گفتگو کرتا ہے اور اس امر پر شا داں کہ اس کی Media Appearanceریٹنگز کے نئے ریکارڈ قائم کررہی ہے۔وطنِ عزیز میں عمران خان صاحب کسی حد تک ٹرمپ جیسا رویہ اپنائے رہے۔اندھی نفرت وعقید ت سے بالاتر ہوکر سوچیں تو لاک ڈاﺅن کی وجہ سے پاکستان کے لاکھوں نہیں ایک کروڑ سے زیادہ افراد روزگار نہ ہونے کے سبب فاقہ کشی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ان کی پریشانی کی فکر بھی ضروری ہے۔وزیر اعظم اس کے بارے میں متفکر ہیں۔میں ان کی فکر کو ”رعونت“ یا ’لاعلمی“ پکارنے کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔وزیر اعظم کی تشویش کے باوجود وفاقی حکومت پاکستان میں لاگو ہوئے لاک ڈاﺅن کو 14اپریل تک بڑھانے کو مجبور ہوئی۔ ہمارے چسکہ فروش اب یہ کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ لاک ڈاﺅن کی مدت بڑھانے اور اسے سختی سے لاگو کرنے کا فیصلہ ”کس“ نے کیا ہے۔عام حالات میں شاید یہ سوال اٹھانا ضروری تھا۔ہم ان دنوں مگر ایک سنگین بحران کا سامنا کررہے ہیں۔اس بحران کی شدت کا عالمی تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے یہ اصرار کرنا لازمی ہے کہ فی الوقت لاک ڈاﺅن کی مدت بڑھانے اور اسے سختی سے لاگو کرنے کے علاوہ کوئی راستہ ہی موجود نہیں تھا۔لاک ڈاﺅن کی اہمیت سمجھنے کے لئے نیویارک ٹائمز میں چھپی ایک خبر کا ذکر ضروری ہے۔اس خبر کے مطابق امریکہ میں بخار کی پیمائش کرنے والے ایک جدید تھرمامیٹر بیچنے والی کمپنی نے جو آلہ مارکیٹ کیا ہے اس کے ذریعے حاصل ہوئی معلومات ایک ماسٹر کمپیوٹر میں ازخود جمع ہوجاتی ہیں۔حال ہی میں ابھرے اعدادوشمار نے واضح انداز میں یہ ثابت کردیا ہے کہ کامل لاک ڈاﺅن کی زد میں آئے امریکی شہروں میں سماجی دوری کی وجہ سے لوگوں میں عمومی بخار کی تعداد میں حیران کن حد تک کمی ہورہی ہے۔ان اعدادشمار کی بدولت ہم یہ فرض کرسکتے ہیں کہ سماجی دوری افراد میں فقط کرونا ہی نہیں دیگر بیماریوں کے خلاف بھی فطری طورپر موجود مدافعانہ نظام کو توانائی کے ساتھ برقرار رکھنے میں مددگارثابت ہورہی ہے۔پریشان کن حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ اداسی اور پریشانی انسانوں میں موجود فطری مدافعت کو کمزور تر بناتی ہے۔دیہاڑی اور تنخواہ سے محروم ہوئے لاکھوں پاکستانی راشن کی عدم دستیابی کی بدولت حواس باختہ ہورہے ہوں گے۔خدانخواستہ ان کی پریشان کے مداوے کے ٹھوس ذرائع میسر نہ ہوئے تو کرونا سے محفوظ رہنے کے باوجود وہ فطری مدافعتی نظام کمزور ہوجانے کے باعث دیگر بیماریوں کاشکار بھی ہوسکتے ہیں۔گھروں میں بیٹھ کر اپنے ٹیلی فونوں پر میسر فیس بک یا ٹویٹر کے ذریعے سیاسی مخالفین کی بھد اُڑانے کے بجائے ہم سب کو یکسو ہوکر ایسی راہیں تلاش کرنا ہوں گی جو حکومت کو لاک ڈاﺅن کے باعث بے بس ولاچار محسوس کرتے دیہاڑی داروں اور کم آمدنی والوں کو تشفی پہنچانے میں مددگارثابت ہوں۔محض ایک رپورٹر ہوتے ہوئے میں شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی فہرست میں موجود گھرانوں کو جلدازجلد12ہزار روپے نقد رقم کی صورت فراہم کردئیے جائیں تو کم از کم50لاکھ گھرانوں کی فوری مدد ہوجائے گی۔وہ حکومت کی فراہم کردہ رقوم سے اپنے محلوں یا قصبات میں قائم کریانے اور سبزی کی مقامی دوکانوں سے خریداری کریں گے تو یہ دھندے چلانے والوں کی آمدنی بھی جاری رہے گی۔نقد رقم کے علاوہ کم از کم تین ماہ تک ان گھرانوں کو بجلی اور گیس کے بل بھی نہ بھیجے جائیں جو عموماََ ہر ماہ ان مدوں میں تین سے پانچ ہزار روپے ادا کرتے ہیں۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹر ہوئے گھرانوں کو فوری ریلیف فراہم کرنے کے ساتھ ہی ساتھ دیگر گھرانوں کی نشان دہی کا عمل بھی آج کے Digitalدور میں تیز رفتاری سے مکمل کیا جاسکتا ہے۔ انہیں بھی Cash Transferکے ذریعے گھر گھر راشن پہنچانے والے تقریباََ ناممکن نظر آتے نظام کی ممکنہ قباحتوں سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔کرونا کی وجہ سے نازل ہوا کڑا وقت ”فروعات“ کو نظرانداز کرنے کا تقاضہ کرتا ہے۔وباءکے موسم میں بھی لیکن پاکستان ہی نہیں دُنیا بھر کے بے تحاشہ لوگ اپنے دلوں میں موجود تعصبات کو سفاکانہ بے رحمی سے اجاگر کرتے نظر آرہے ہیں۔ہمارے ہاں کئی ہفتوں تک ایران سے آئے ”زائرین“ کو کرونا کا واحد کیرئیر بناکر ان افراد کی ”نشان دہی“ کا تقاضہ ہوتا رہا جنہوں نے انہیں تفتان تک محدود رکھنے کے بجائے ملک بھر میں پھیل جانے کی ”سہولت“ فراہم کی۔زائرین کی آمد سے جڑے سوالات اپنی جگہ برقرار تھے تو تبلیغی جماعت کو بھی غصے کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ان دونوں موضوعات کے ضمن میں سوشل میڈیا پر جاری بحث نے محض فرقہ وارانہ منافرت ہی بھڑکائی۔ کرونا وائرس سے متعلق ٹھوس معلومات تعصب بھرے شوروغوغامیں لیکن گم ہوگئیں۔ لاک ڈاﺅن کی اہمیت اور اس کے دوران دیہاڑی داروں اور کم آمدنی والوں کی مشکلات پر توجہ مرکوز نہ رہی۔پاکستان کے برعکس بھارت کا سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ ریگولر میڈیا اور اس کے کئی جغادری صحافی ان دنوں تبلیغی جماعت کو کئی حوالوں سے اپنے ملک میں کرونا پھیلانے کا حقیقی ذمہ دار ٹھہرانا شروع ہوگئے ہیں۔دل میں نظام الدین اولیاءکے مزار سے ملحق بستی میں اس جماعت کا مرکز ”کرونا کا گڑھ“ بناکر دکھایا گیا جس کے خلاف سرکار سے ویسے ہی حملے کا تقاضہ ہوا جو ”دشمن“ کی بستیوں کو نیست ونابود کرنے کے لئے اختیار کیاجاتا ہے۔تبلیغی جماعت کے خلاف نفرت بھڑکانے کے لئے یہ الزام بھی تواتر سے لگایا جارہا ہے کہ القاعدہ جیسی تنظیموں کو مبینہ طورپر ”رضا کار“ اسی جماعت کی صفوں سے دستیاب ہوئے۔ٹھوس اعدادوشمار اس الزام کو صراحت سے جھٹلاتے ہیں۔اسلام اور مسلم دشمنی مگر تبلیغی جماعت کو نفرت کا نشانہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہے۔تبلیغی جماعت کا ذکر ہوتا ہے تو کئی جغادری صحافی یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ یہودیوں میں بھی بنیاد پرستی کے حوالے سے معروف ایک Harediفرقہ ہے۔ اس فرقے کے لوگ جدید ریاست کے ”سیکولر“ نظام کو تسلیم نہیں کرتے۔کرونا کی وجہ سے لاگو ہوئے لاک ڈاﺅن کو انہوں نے مسترد کردیا۔یہودی مذہب کو ”تحفظ“ دینے پر قائم ہوئے اسرائیل میں لیکن ان کی مخصوص بستیوں میں کرونا کی زد میں آئے لوگوں کی تعداد اس ملک میں اُبھری اوسط سے چار سے آٹھ گنا زیادہ نظر آئی۔کٹر اور متعصب نیتن یاہو کی حکومت بالآخرمجبور ہوگئی کہ ریاستی تشدد کے جارحانہ انداز میں استعمال کے ذریعے انہیں لاک ڈاﺅن کا احترام کرنے کو مجبور کرے۔

 عمر ان خا ن لٹیروں کے احتساب کیلئے پرعزم ہیں: شکیلہ سلیم رانا

امریکہ میں Evangelicalفرقہ بھی بہت متعصب ہے۔اس کے رہ نما Jerry Falwellنے بہت رعونت سے اعلان کیا کہ ٹرمپ کے سیاسی مخالفین کرونا کے بہانے لوگوں کو خوفزدہ بنارہے ہیں۔ان لوگوں کی یونیورسٹیاں اور کالجز بھی ہیں۔ Jerryنے انہیں کھولے رکھنے پر اصرار کیا۔امریکی انتظامیہ ابھی تک اس کے آگے سرنگوں نظر آرہی ہے۔غالباََ اس فرقے کی جانب سے پھیلائے تعصب کی بنا پر امریکہ میں وبائی امراض کے مستند ماہر ڈاکٹر انتھونی فوچی کو اب سکیورٹی مہیا کرنا پڑی ہے۔ یہ ماہر ٹرمپ کے پیچھے کھڑا نظر آتا تھا۔ امریکی صدر جب کرونا کو ”بہادری“ سے نظرانداز کرنے پر زور دیتا تو فوچی کے چہرے پر اُکتاہٹ اور بیزاری والی مسکراہٹ نمودار ہوجاتی۔ Fauciکے چہرے پر نمایاں ہوئے تاثرات کو امریکی میڈیا نے ڈرامائی انداز میں اپنی سکرینوں پر دکھایا۔بعدازاں وہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے التجا کرتا رہا کہ کرونا کی وباءکو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔امریکہ کے مسیحی انتہاپسندوں نے مگر حقائق بیان کرنے والے اس ماہر کو ”واجب القتل“ بنادیا ہے۔

گوجرانوالہ:   بازاروں ،دکانوں پرمضر صحت اشیا ء کا دھندا دھڑلے سے جاری
شیئر کریں:
Share
Tweet Google+ Whatsapp

نصرت جاوید

نصرت جاوید


مشہور ٖخبریں
  • ’’قسمت میں میری چین سے جینا لکھ دے‘‘

    Jan 11, 2021
  • فیس بک ٹوئٹر: طاقتور عالمی فیصلہ ساز

    Jan 13, 2021
  • دیدہ ور کی تلاش اور بے رحم احتساب 

    Jan 18, 2021
  • ندیم افضل چن کسانوں کو منظم کریں

    Jan 15, 2021
متعلقہ خبریں
  • کرونا وبا کے باعث سکاٹ لینڈ میں 80سال بعد پہلی مرتبہ مردم ...

    Jul 18, 2020 | 17:39
  • قرآن پاک فلاح اور نجات کا ذریعہ ہے، علامہ طیب ہزاروی

    Dec 26, 2019 | 13:28
  • کرونا وائرس پھیپھڑوں کو کس طریقے سے متاثر کرتا ہے؟

    Jan 16, 2021 | 10:31
  • کرونا وائرس ویکسین: پہلی خوراک کی خالی بوتل میوزیم میں رکھی ...

    Dec 15, 2020 | 17:41
E-Paper Nawaiwaqt
اہم خبریں
  • پنجاب کے میدانی علاقوں اور بالائی سندھ میں دھند چھائے رہنے ...

    Jan 20, 2021 | 15:29
  • وزیراعظم عمران خان کا وانا کیلئے تھری اور فور جی سروس شروع ...

    Jan 20, 2021 | 15:11
  • ہٹلر کی کتاب می کامپ پہلی بار پولینڈ میں شائع کی جائےگی

    Jan 20, 2021 | 14:31
  • جاپان نے کورونا ٹیسٹ کرنے والے روبوٹ تیار کر لیے

    Jan 20, 2021 | 14:21
  • اماراتی برآمدات کے لیے سعودی عرب سب سے بڑی مارکیٹ

    Jan 20, 2021 | 13:54
  • کالم
  • اداریہ
  • سرے راہے
  • ذوالقرنین خان کی برطرفی بے معنی!!!!!

    Jan 20, 2021
  • ستارے : 20 جنوری اور مابعد 

    Jan 20, 2021
  • باجوہ ڈاکٹرائن کی بڑی کامیابی، افواجِ پاکستان ...

    Jan 19, 2021
  • ایرانی جیمز بانڈ براڈشیٹ اور پارٹی فنڈنگ 

    Jan 19, 2021
  • رونا ہے کیوں برپا، چینی ساٹھ روپے لیکن کیسے اور ...

    Jan 18, 2021
  • 1

    دنیا بھارت کو مودی کی بدمعاش ریاست بننے سے بزور روکے

  • 2

    براڈ شیٹ معاملہ ، شفاف تحقیقات کی ضرورت 

  • 3

    ہر شہری  کو صاف پانی کی فراہمی  حکومت کی ذمہ داری 

  • 4

    پاک فوج ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے‘ ٹاپ ٹین میں شامل ہونا قوم ...

  • 5

    احتجاج جمہوری حق ہے لیکن …

  • 1

    بدھ ‘  6؍ جمادی الثانی 1442ھ‘  20؍ جنوری 2021ء 

  • 2

    منگل  ‘  5؍ جمادی الثانی 1442ھ‘  19؍ جنوری 2021ء 

  • 3

    پیر  ‘  4؍ جمادی الثانی 1442ھ‘  18؍ جنوری 2021ء 

  • 4

    اتوار  ‘  3؍ جمادی الثانی 1442ھ‘  17؍ جنوری 2021ء 

  • 5

    ہفتہ ‘  2؍ جمادی الثانی 1442ھ‘  16؍ جنوری 2021ء 

  • ادارتی مضامین
  • مضامین
  • ایڈیٹر کی ڈاک
  • نواز کھوکھر،تاجی کھوکھر اور مصطفی کھوکھر 

    Jan 20, 2021
  • فارن فنڈنگ کیس کے سیاسی اثرات

    Jan 20, 2021
  • وقت کے فرعونوں سے ایک ہی سوال

    Jan 20, 2021
  • دنیا کے بدلتے حالات اور ہم ۔۔۔!!   

    Jan 20, 2021
  • پی آئی اے،1955 تا 2021ء 

    Jan 20, 2021
  • قوم کو ایک قائد چاہیے

    Jan 20, 2021
  • ملکی اور عالمی نظام

    Jan 20, 2021
  • ’’شاعری بھی کام ہے آتش مربع ساز کا‘‘

    Jan 20, 2021
  • مہنگائی …!حکومت ، اپوزیشن اور چودھری برادران 

    Jan 20, 2021
  • خطہ پوٹھوہار کی مثالی شخصیت ملک وزیرمحمد

    Jan 20, 2021
  • 1

    بخل سے بچیں‘ ضرورت مندوں کا خیال رکھیں

  • 2

    گوجرانوالہ جوڈیشل کالونی میں انڈر پاس یا فلائی اوور تعمیر کیا جائے 

  • 3

    کیسی جمہوریت؟

  • 4

    موٹروے حکام کی توجہ کیلئے

  • 5

    وفا قی وزیر دا خلہ لا پتہ لخت جگر کی تلا ش میں مد د دیں

  • نور بصیرت
  • قائد اعظم نے فرمایا
  • فرمودہ اقبال
  • 1

    جذبہء محبت

  • 2

    صحبتِ صالحہ کے نتائج

  • 3

    صبر 

  • 4

    خدادادقوت

  • 5

    طیب وطاہر وجود

  • 1

    ثقافت

  • 2

    دنیا 

  • 3

    فرمان قائد

  • 4

    اعتبار

  • 5

    واشگاف الفاظ

  • 1

    انقلاب

  • 2

    اسلام 

  • 3

    فرمودہ اقبال

  • 4

    پیغام

  • 5

    ارمغانِ حجاز

منتخب
  • 1

    دیدہ ور کی تلاش اور بے رحم احتساب 

  • 2

    ندیم افضل چن کسانوں کو منظم کریں

  • 3

    ایرانی جیمز بانڈ براڈشیٹ اور پارٹی فنڈنگ 

  • 4

    براڈ شیٹ جھوٹ اور لالچ 

  • 5

    ستارے : 20 جنوری اور مابعد 

  • حالیہ تبصرے
  • زیادہ پڑھی گئی
  • 1

    برطانوی شخص نے 28 کروڑ ڈالرز کے بِٹ کوائنز والی ہارڈ ڈرائیو غلطی سے کوڑے میں پھینک ...

  • 2

    الیکشن کمیشن نے پی ڈی ایم کی تنقید کو مسترد کردیا

  • 3

    فرینکفرٹ ایئرپورٹ سے مسافروں کی آمد و رفت میں 73 فیصد کمی،37 سال کی کم ترین سطح پر

  • 4

    سنگاپور، قرنطینہ توڑ کر منگیتر سے ملنے پر برطانوی شہری کو 6 ماہ کی جیل

  • 5

    بھارتی گجرات میں ٹرک نے مزدور کچل ڈالے،13ہلاک

  • نوائے وقت گروپ
  • رابطہ
  • اشتہارات
Powered By
Copyright © 2021 | Nawaiwaqt Group