عمران خان اور مودی کے بیانات اور خبروں میں فرق دیکھئے۔ لگتا ہے کہ ’’کرونا‘‘ کا زیادہ اثر مودی پر ہو گیا ہے۔ اتنی بڑی سلطنت کے ہاتھ سے جانے کے بعد مودی زندہ تو نہیں رہ سکے گا۔ اتنی بڑی سلطنت کے چلے جانے کا وہم بھی کرونا سے کچھ کم نہیں جبکہ پاکستان میں اس کے لئے حالات ابھی نارمل ہیں۔
مودی نے لاک ڈائون کر کے اپنی قوم سے معافی مانگی ہے جبکہ عمران خان نے لوگوں کا حوصلہ بڑھایا ہے اور ذخیرہ اندوزوں سے کہا ہے کہ کرونا کی وجہ سے ذخیرہ اندوز جو زیادتی کریں گے ان کے خلاف ہم سخت کارروائی کریں گے۔ اپنے لوگوں کو بھوکوں نہیں مرنے دیں گے۔ ہماری طاقت ایمان اور نوجوان ہیں۔
گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کا بیان بہت اچھا ہے۔ یہ وقت آپس میں لڑنے کا نہیں ’’کرونا کے خلاف لڑنے کا ‘‘ ہے۔ واقعی ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ کونسا وقت کس کے ساتھ لڑنے کا ہے۔ ہم قوم کو اکٹھا کر کے اس مصیبت سے بھی اللہ کے فضل سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ گورنر صاحب نے بہت سیانے سیاستدان کی طرح بیان دیا ہے۔ کرونا کو روکنا بہت مشکل ہے مگر اپنے گھروں میں رہنا تو بہت آسان ہے۔ ہمارے لوگ گھروں میں بھی اگر ڈسپلن کا مظاہرہ نہیں کر سکتے تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے جس طرح کا فرق عمران اور مودی کے بیانات میں ہے وہی فرق پاکستانی اور بھارتی قوم کے لوگوں میں ہونا چاہئے۔
اس موقعے پراگر ہمارے لوگ متحد ہو جائیں اور 65 ء کی جنگ کی طرح مظاہرہ کریں تو کیا مجال ہے کہ کوئی کروناہمیں کچھ نقصان پہنچا سکے۔ یہ وقت ایک دوسرے کو حوصلہ دینے کاہے ہمت ہارنے کا نہیں۔
میں تو گھر سے نہیں نکلا مگر باہر جانے والے لوگ بتاتے ہیں کہ اب بھی گزرے ہوئے دنوں جیسا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح کے حالات میں ہمیں ایک قوم بن کے حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے اسطرح کے کئی مواقع آئے ہیں جن میں ہم نے بڑے دل گردے سے کام کیا ہے۔اس لیے اب کی بار بھی ہم سرخرو ہونگے۔
ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں بھی افراتفری کا زیادہ چانس ہے۔ وہ ملک بڑا ملک ہے اور وہاں غربت بھی زیادہ ہے۔ اس لئے وہاں افراتفری کا زیادہ امکان ہے۔ وہاں اگر افراتفری ہوئی تو بھارتیوںکے لئے زیادہ بڑے نقصان کا امکان ہے۔ بھارت کی ہماری سرحدیں چونکہ ملتی جلتی ہیں اس لئے دونوںملکوںمیں بھی تباہی زیادہ ہو سکتی ہے۔
عمران کا رویہ اس موقع پر نارمل آدمی کا ہے اور اسنے لوگوں کو یہ تاثر دیا ہے کہ یہ مشکل وقت ہے مگر یہ بھی گزر جائے گا۔عمران جب بات کرتا ہے تو ریاست مدینہ کو نہیںبھولتا یہ ایک اچھی بات ہے۔ اس سے پاکستانیوں کو ایک طاقت محسوس ہوتی ہے۔ یہ اچھی روایت ہے جو عمران قائم کر رہا ہے۔ اگرچہ ابھی تک وہ بات پیدا نہیں ہو سکی جس کی امید لوگوںکو عمران خان کے ساتھ تھی مگر ابھی لوگ ناامیدبھی نہیں ہوئے۔ اب بھی امید ہے کہ اللہ پاکستان کے لوگوں کو اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود رحم کرے گا۔ اب بھی کبھی کبھی ایسے موقعے آنا چاہئیں کہ لوگ سیدھے رہیں اور انہیںاپنی غلطیوں کا احساس رہے۔
پاکستان میں آجکل ہر طرف کروناکا ذکر ہو رہا ہے۔ ہر ایک اپنی ماہرانہ رائے دے رہاہے۔ بڑے بوڑھے البتہ اس سے ناواقف ہیں۔ وہ ویسے ہی موت کے قریب ہوتے ہیں۔ ان کے لئے ایک جھٹکا بھی بہت ہوتا ہے۔ جوں جوں دن بیت رہے ہیں، اثرات بھی کم ہو رہے ہیں اس وقت کرونا کے زیادہ اثرات امریکہ میں دیکھے گئے ہیں وہاں کرونا سے متاثرین کی تعداد زیادہ ہے اور اموات بھی کم نہیںہیں۔ اس لیے لوگ مطمئن ہیںکیونکہ امریکہ کی طرف سے انہیںکسی فائدے نقصان کی خبر ہمیشہ آئی ہے۔ امریکہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پہلے دنیا بھر کے لوگوں کو ڈراتا ہے اور پھر بات ختم ہوجاتی ہے۔ اللہ کرے یہ بات بھی ختم ہو جائے تاکہ دنیا میں سکون ہو۔
یہاں کبھی ایٹم بم بنتے ہیں اور کبھی تباہی پھیلانے والے طریقے بیان کئے جاتے ہیں۔ ہمیشہ ایسی خبریں ملتی ہیں جن سے خوف کا دائرہ اوروسیع ہو جاتا ہے۔ کبھی تو ان کو خوشخبری سنائو جو ساری دنیا میں پھیل جائے لوگ خوش ہو پائیں میں نے اپنے دوستوں کی طرف نظر ڈالی تو وہ اندھیری رات میںروشنی کے اندر بیٹھے تھے۔ یہ سب بھی انہی گوروں کی محنت کا صلہ ہے جنہوں نے کرونا کی خبر اڑائی ہے۔ اب کوئی اچھی خبر بھی آنا چاہئے ۔ اچھی خبر خوشی کی طرح ہے اس لیے دنیا میںخوشیاں کم اور غم زیادہ ہیں۔