مجید نظامی اور میری رفاقت ان کی ادارت کے عرصہ آٹھ دس سال زائد کی تھی۔ ہم نے ایم اے سیاسیات میں اکٹھے داخلہ لیا لیکن میں کانٹا بدل کر لاء کالج چلا گیا اور مجید صاحب ایم اے کرکے بیرسٹری کیلئے انگلستان چلے گئے۔ یہاں وہ ’’ سر راہے‘‘ لکھتے تھے اور لندن سے انہوں نے سیاسی طنز و مزاح کا کالم’’ مکتوبِ لندن‘‘ لکھنا شروع کیا اور ان کی رگ ظرافت انگریزی معاشرے کو ٹھیک ٹھاک چڑکاتی تھی اور یہ بہت مقبول کالم تھا۔
آپ مجید نظامی صاحب کو انکے چھپنے والے خیالات کے حوالے سے بطور قائداعظم، علامہ اقبال اور محترمہ فاطمہ جناح کے جان نثار کارکن، فکر اقبال کا ترجمان اور دو قومی نظرئیے کا پاسبان، جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے والا، عاشق رسولﷺ اور دین دار شخص کے طورپر جانتے ہیں مگر میں آپ کا تعارف اس چھپے ہوئے مجید نظامی سے کرائوں گا جس کا میں نے اپنی طویل رفاقت کے دوران مشاہدہ کیا۔ جہاں تک میرے مشاہدے کا تعلق ہے‘ مجید نظامی بطور انسان خوش مزاج، خوش گفتار، خوش لباس، اعلیٰ تعلیم یافتہ، خوددار مگر سادہ ، ملکی اور غیر ملکی سیاست کے اتار چڑھائو کو سمجھنے والا، محب وطن شخص اور علامہ اقبال کی زبان میں ’’ دیدہ ور‘‘ تھا جو شے کی حقیقت کو سمجھنے والی نظر رکھتا تھا‘ جو صبح تمام اخبارات کو پرکھ لینے کے بعد گھر سے دفتر کیلئے نکلتا تھا۔ دفتر پہنچتے ہی ایڈیٹوریل سٹاف کی میٹنگ ہوتی تھی اور پالیسی گائیڈ لائن خود دیتا تھا۔ ہر کالم خود Vet کرتا اور ضروری اصلاح کرتا تھا۔ شروع میں جب بہت سینئر لوگ تھے جیسے م ش یا چراغ حسن حسرت تو ان کے کالم Vet نہیں ہوتے تھے۔ ان کی زیر ادارت روزنامہ نوائے وقت میں کسی کی پگڑی نہیں اچھالی جاتی تھی۔ سیاسی اختلاف رائے رہتا مگر اسے دشمنی میں نہیں بدلا جاتا تھا۔ وہ ہر ایک کی عزت کرتے تھے اور مجید نظامی یہ جانتے تھے کہ باہمی تعلقات مروّت‘ رواداری اور باہمی احترام کے مرہون منت ہوتے ہیںاور تہہ در تہہ جھلیوں سے بنے پیاز کی طرح ہوتے ہیں۔ اگر ان کو کاٹو گے تو آنکھوں میں سے آنسو ہی نکلیں گے۔ خان عبدالولی خان کے ساتھ سیاسی اختلاف ضرور تھا مگر ان کی وفات پر خود ولی باغ جا کر پسماندگان سے تعزیت کی۔ مجید کا کیریئر بھی ہر انسان کے کیریئر کی طرح تھا جو ہر انسان کے کیریئر کی طرح مالی و معاشی مشکلات سے شروع ہوا تھا اور جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنے کی جرأت رکھنے کی وجہ سے حکومت وقت کا جبر بھی سہنا پڑتا تھا۔
پہلا واقعہ جس کا میں ذکر کروں گا‘ وہ یحییٰ خاں کی حکومت کے دور کا ہے اور اس واقعہ سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مجید نظامی ایک فقرے میں کوزے میں دریا نہیں سمندر بند کرنے والی صلاحیت رکھتے تھے۔ بہت دفعہ ذکر ہوچکا ہے کہ یحییٰ خان کے مارشل لاء کے دوران باضمیر صحافیوں پر مقدمے بنائے گئے اور اس ضمن میں مولانا کوثر نیازی نے یحییٰ خان کے ساتھ ایک میٹنگ کا اہتمام کیا جس میٹنگ کے دوران نیازی صاحب نے یحییٰ خان سے معافی کا اظہار کیا مگر نظامی صاحب کوان کی خود داری نے مجبور کیا اور اٹھ کھڑے ہوئے کہ معافی کس بات کی اور اس طرح میٹنگ بدمزگی میں ختم ہوگئی۔ انہی مقدموں کے دوران کا واقعہ ہے کہ پیپلز ہائوس (جہاں اس وقت پنجاب کے ایم پی ایز کا ہوسٹل تھا) میں فوجی عدالتیںلگا کرتی تھیں جہاں چار باضمیر ایڈیٹرز کے خلاف مقدمے چل رہے تھے۔ ان کی عزت افزائی کا اہتمام خاص طور پر اس طرح کیا گیا تھا کہ عدالت میں شنوائی کیلئے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ عدالت کے باہر نہ کرسی، نہ بنچ، نہ سایہ ہوتا تھا اور یہ باضمیر مدیران گھنٹوں اپنی ٹانگوں پر کھڑے ہوکر آرام فرماتے تھے۔ان مدیران میں ایک ملزم میرا کالج کا دوست اور بے تکلف یار حنیف رامے بھی تھا جو ہفت روزہ ’’ نصرت‘‘ کا مدیر/مالک تھا اور اپنے خیالات اور زور قلم سے پیپلز پارٹی کے اخبار’’ مساوات‘‘ کا ملازم ایڈیٹربن گیا تھا۔ میں مجید نظامی کا وکیل تھا۔ ایک دن ہم تینوں عدالت میں شنوائی کیلئے کڑکتی دھوپ میں انتظار کر رہے تھے کہ میں نے دیکھا کہ حنیف رامے کے چہرے پر پریشانی اور منہ لٹکا ہوا ہے۔ میں نے بے تکلفی سے کہا اور آرٹسٹ( میں اس سے آرٹسٹ کے نام سے ہی کلام کرتا تھا)’’تیرا منہ کیوں لٹکیا ہے۔ تگڑے ہو ویکھ مجید کتنا تگڑا ہے‘‘ تو وہ روتے منہ کے ساتھ بولا کہ صبح صاحب ( اس کے کا ن تک یہ بات نہیں پہنچی ہوگی کہ یحییٰ خاں اور بھٹو صاحب آپس میں گِٹ مِٹ ہوگئے ہیں) نے فون پر مجھے سخت ڈانٹا ہے۔ اس پر مجید نظامی نے کہا ’’ تینوں سمجھ آئی اے کہ مالک ہون وچ تے ملازم ہون وچ کی فرق اے۔‘‘ اس ایک فقرے میں کوزے میں سمندر بند کرنے والی بات نظرآتی ہے۔ اس کا مختصر ترین مطلب یہ ہے کہ جب کوئی قلم کار ملازمت اختیار کرتا ہے تو اس کی تحریر کی آزادی اور تخیل کی پرواز مالک کے خیالات کے اندر مقید ہو جاتی ہے۔
دوسرا واقعہ اس طرح ہے کہ میں گرمیوں کی چھٹیوں میں نتھیا گلی کرایہ پر مکان لیکر چھٹیاں گزارتا تھا اور ایک دفعہ نظامی صاحب اور ان کی مسز میرے مہمان تھے۔ بھٹو صاحب صدر پاکستان تھے۔ نتھیا گلی میں اخبارکوئی گیارہ ساڑھے گیارہ بجے پہنچتا تھا۔ ہم نوائے وقت دیکھ رہے تھے کہ فرنٹ صفحے پر NAP یا ولی خان کے بیان کی چار کالمی موٹے قلم سے خبر لگی ہوئی تھی‘ پڑھتے ہی مجید نظامی بولے ’’ہوگئی پیشی۔لاہور میرے عملے کو مصیبت پڑ گئی اور میں نتھیا گلی میں ہوں۔‘‘ میں نے پوچھا کیا بات ہے تو جواب دیا بھٹو صاحب ولی خاں اور ان کی پارٹی سے سخت الرجک ہیں اور ولی خاں کی خبر کی وجہ سے پیشی پکی ہے۔ ان دنوں اخباری کاغذ کا بھی کوٹہ ہوتا تھا اور حکومت وقت جب چاہے اشتہارات بھی روک لیتی تھی۔ فوری اسلام آباد طلبی ہوتی تھی۔ اشاروں کنایوں میں برہمی یا ناراضگی کا اظہار کرکے کوٹہ کم یا بند کردیا جاتا تھا جس سے بہت مشکلات پیدا ہوجاتی تھیں۔ میں نے پوچھا آپ وہاں ہوتے تو کیا کرتے تو جواب دیا میں کسی حکمران کی خوشی کیلئے خبر کو Kill نہ کرتا مگر برہمی کے پیش نظر ناراضگی کی حد کو کم ترین سطح پر لاتا جیسے اگر وہ فرنٹ صفحہ پر چار کالمی خبر کی مستحق ہے تو میں اسے پیچھے یا اندر کے صفحہ پر تین کالمی خبر لگا کر معاملہ ذرا ٹھنڈا رکھتا اور اس طرح قاری تک خبر بھی پہنچا دیتا۔ ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ہیلی کاپٹر کی آواز آئی جو دیکھتے ہی دیکھتے گورنمنٹ ہائوس میں لینڈ کرگیا۔ بھٹو صاحب اکثر لنچ کرنے کیلئے نتھیا گلی تشریف لاتے تھے۔ کچھ دیر بعد ایک سفید کپڑوں والا پگڈنڈی سے چڑھائی چڑھ کر میرے گھر کی طرف آرہا تھا۔ میں نے مجید صاحب کو مذاق کیا کہ آپ کی پیشی ادھر ہی ہوگئی ہے۔ اتنے میں سفید کپڑوں والا ہمارے نزدیک پہنچ گیا اور دریافت کیا کہ لاہور سے نظامی صاحب آپ کے ہاں مہمان ٹھہرے ہیں۔ میں نے کہا فرمائیں تو اس نے بتایا صدر صاحب فرماتا ہے کہ نظامی صاحب شام کی چائے ان کے ساتھ پئیں۔ میں چائے کے وقت مجید صاحب کو گورنمنٹ ہائوس چھوڑ آیا اور چائے کے بعد سرکاری گاڑی نے انہیں میرے ہاں پہنچایا۔ میں نے پوچھا کیسی گزری‘ ہنس کر کہنے لگے صبح لاہور آفس فون گیا تھا اور انہوں نے بتایا کہ مجید صاحب نتھیا گلی میں آفتاب فرخ کے ہاں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ نتھیا گلی چھوٹا مقام ہے اور سب لوگ جانتے ہیں کہ کس بنگلہ میں کون ٹھہرا ہے۔ مزید بتایا کہ پڑتے ہی بھٹو صاحب کہتے ہیں یار پھر سے دوستی نہیں ہوسکتی‘ کسی وقت ایسی دولتی مارتے ہو سیدھی پیٹ میں لگتی ہے۔ مجید صاحب نے کہا میں نے پوچھا میں نے ایسی کیا بات کہہ دی ہے جس پر بھٹو صاحب نے کہا ولی خاں ایک تحصیل کا لیڈر ہے اور تم اس کو پہلے صفحے کی کوریج دیتے ہو۔ میں نے بھی خوش دلی سے جواب دیا کہ وہ ایک قومی پارٹی کا سربراہ ہے‘ اس کو کوریج تو ملنی ہے میں نے بھی کوٹے اور اشتہار کی کوئی بات ہی نہیں کی۔ بھٹو صاحب نے جو کرنا ہوگا پہلے ہی کردیا ہوگا اور اس چائے پر مجھے ممنون کرنے کی خواہش ہوگی جس میں انہیں مایوسی ہوئی ہوگی۔ بہرحال انہوں نے دبی وارننگ دی تو یہ ایک ایڈیٹر کی ذہانت ہے جو انہوں نے کرنا تھا وہ مجھے پہلے ہی بتا گئے تھے کہ میں ایسی حکمت عملی اختیار کرتا ہوں کہ بات بھی بن جائے اور دل آزادی بھی نہ ہو۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024