انصاف اور آئین کی بالادستی سے معیشت کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے،اسد عمر
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ سیاسی تنازعات سے معیشت اور اقتصادی فیصلہ سازی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس سے بچناچاہئے۔ تاہم جرائم کے خلاف کاروائیاں کرناور قانون کی حاکمیت قائم کرنا کسی طرح سے بھی سیاسی تنازعہ یا انتشار قرار نہیں دیا جا سکتا اور اس کا موازنہ کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر قانون کی حکمرانی، معاشرے میں انصاف اور آئین کی بالادستی ہو تو ایک طویل عرصے تک ہم اپنی معیشت کو مضبوط بنانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ انہون نے ان خیالات کا اظہار پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) اور فریڈرک ایبرٹ سٹیفٹنگ (ایف ای ایس) کے مشترکہ ز یرِ اہتمام پری بجٹ مشاورت اور ’ترقی اور عدم مساوات‘ کے عنوان سے کتاب کی رونمائی کے موقع پر سے کر رہے تھے ۔ اس موقع پر عبدالرازق داؤد، حماد اظہر، شاندانہ گلزار خان، سرتاج عزیز، رومینا خورشید عالم، ڈاکٹر حفیظ اے پاشا، خاور ممتاز، ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اسد عمر نے کہا کہ ہمارے اقتصادی فیصلوں کی بنیاد مقامی ریسرچ اور حقائق پر ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرو چند اشرافیہ کے اثر میں ہے اور ہم سب کو ایک ایسا سماج اور سیاسی نظام لانے کی ضرورت ہے جہاں اشرافیہ کے اثرات کم ہو سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے انڈونیشیا ہ کے ساتھ کامیابی سے ایف ٹی اے پر دوبارہ معاہدہ کیا ہے اور انڈونیشیا کی منڈی تک 20 تجارتی اشیاء کی ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہو گئی ہے۔ سابق ڈپٹی چیئرمین، پلاننگ کمیشن ، سرتاج عزیز نے کہاکہ موجودہ حکومت کو زراعت کے شعبے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر حفیظ اے پاشا نے کہا کہ پاکستان میں ایک فیصد کسان کے پاس زمین کا 22 فیصد حصہ ہے جبکہ 50 فی صد چھوٹے کسانوں کے پاس اس زمین کا 11 فیصد حصہ ہیں، جو کہ ایک زرعی معیشت میں عدم مساوات کو ظاہر کرتا ہے۔ خواتین کی نیشنل کمیشن کے چیئر پرسن خاور ممتاز نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں اعلی تعلیم یافتہ بیروزگار خواتین ہیں، جو قیمتی اثاثہ ہیں ۔ ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ پائیدار ترقی اور معیشت کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کرگورننس اور معیشت کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے اتفاق رائے قائم کریں۔ انہوں نے متفقہ چارٹر آف اکانومی بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔