میں جن دنوں روزنامہ جنگ میں تھی تو کسی نے کہا کہ جو نوائے وقت جاتا ہے اس کا ہو جاتا ہے میں بہت حیران ہوئی کیونکہ اس وقت تک میں بھی تین مرتبہ نوائے وقت جا چکی تھی۔ میں چوتھی جماعت سے ہی نوائے وقت سے وابستہ ہو گئی تھی نوائے وقت، مشرق اور امروز میں میری کہانیاں، مضمون، لطیفے، نظمیں چھپتی تھیں تب میں نوائے وقت میں صرف تین لوگوں سے واقف تھی۔ ایک عاطر ہاشمی جو بچوں کے صفحے کے انچارج تھے اس کے علاوہ بیدار سرمدی اور شریف کیانی کو جانتی تھی۔ نویں دسویں جماعت میں میری دوستی زبیدہ خانم سے بھی ہو گئی جو خواتین ایڈیشن کی انچارج تھیں اور غالباً انہوں نے نیا نیا ایڈیشن سنبھالا تھا۔ پھر قیوم اعتصامی، طارق اسماعیل ساگر، عطا الحق قاسمی، بشیر محمود، سعید آسی، سیف اللہ سپرا، اسد اللہ غالب، نذیر ناجی، پروفیسر سلیم وغیرہ سے بھی واقف ہو گئی۔ میں اپنے زمانہ و طالبعلمی میں تین مرتبہ نوائے وقت گئی لیکن وہاں مجھے کوئی ایسی خاص مسحورکن بات نظر نہ آئی۔ سکول جیسا ڈسپلن دکھائی دیا سب لوگوں کو سر جھکائے خاموشی سے کام کرتے دیکھا اور سچ بات یہ تھی کہ مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگا۔ مجید نظامی مرحوم کو تب تک میں نے نہیں دیکھا تھا لیکن جن دنوں میں ماسٹر کر رہی تھی اور روزنامہ جنگ میں باقاعدہ جاب کر رہی تھی تو میرے لئے یہ بیان بہت عجیب سا تھا جنگ اخبار میں کافی آزاد خیالی پائی جاتی تھی۔ ماحول انتہائی دوستانہ اور خوشگوار ہوتا تھا۔ اس لئے مجھے حیرت ہوئی کہ دونوں اخبارات کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نوائے وقت مجھے بالکل ایک مدرسے جیسا لگا تھا بات میرے ذہن کے کسی حصے میں اٹک گئی تھی۔ ڈھائی سال بعد میں کسی بات سے ناراض ہوئی اور استعفیٰ دیکر گھر آ گئی۔ اگلے روز صبح مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میں کل اپنے ادارے میں غصے میں استعفیٰ دیکر آ گئی ہوں میں تیار ہو کر آفس کیلئے نکلی آدھے راستے میں یاد آیا کہ کل تو میں استعفیٰ دے آئی تھی۔ اب سمجھ نہیںآ رہی تھی کہ کیاکروں۔ اچانک یاد آیا کہ چیئرنگ کراس کے پاس نوائے وقت کا دفتر ہے معلوم نہیں کیسے میرے قدم اس طرف اٹھ گئے آفس جا کر مجید نظامی صاحب کا پوچھا۔ پتہ چلا کہ میٹنگ لے رہے ہیں ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑیگا۔ بہرحال میں نے ایک چٹ پر اپنا نام لکھ کر بھیج دیا۔ ٹھیک دس منٹ بعد مجھے منیر نے کہا کہ آئیے! آپکو صاحب بلا رہے ہیں۔
اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں کتنی بڑی اور دبنگ شخصیت کے روبرو اپنی پیش ہو رہی ہوں۔ اسکے بعد میں نے انہیں کہا کہ یہاں کام کرنے کیلئے میری دو شرطیں اور بھی ہیں۔ اس بات پر مجید نظامی مرحوم بے ساختہ ہنس پڑے۔ بولے لگتا ہے جاب آپ نے نہیں میں نے لینی ہے۔ میں نے کہا کہ دیکھیئے آخر کام تو میں نے کرنا ہے اس لئے ایک شرط تو یہ ہے کہ گرمی سردی میں پانچ بجے ہر حالت میں چھٹی کرونگی، مجھے گھر سے اجازت نہیں ہے کہ میں دیر تک کام کروں۔ دوسرے میری تنخواہ اچھی رکھنی ہے۔نظامی صاحب ایک بار پھر مسکرائے کہنے لگے آپ کو تنخواہ آپ کی مرضی سے ملے گی اور آپ پانچ بجے چھٹی کر سکتی ہیں۔میں نے ذرا حیران ہو کر کہا تو کیا آپ نے میری تمام شرطیں مان لیں؟ مگر آپ نے تو کوئی شرط نہیں رکھی؟؟ نظامی صاحب نے کہا کہ میں آپ کے نام سے آٹھ دس سال سے واقف ہوں آپ ہمارے ہاں بھی لکھتی رہی ہیں اور معاصر اخبار میں بھی۔ میری مجید نظامی مرحوم سے یہ پہلی ملاقات تھی اور ساری گفتگو بتانے کا مقصد یہ ہے کہ نظامی صاحب جن سے بڑے بڑے لوگ بات کرتے ہوئے انتہائی مودب ہوتے تھے میں نے ان سے کس طرح بچوں کے انداز میں با ت کی اور انہوں نے کس خوشدلی سے مجھے جواب دیا۔ نظامی صاحب انتہائی سنجیدہ، بردبار، بارعب، باوقار انسان تھے۔ وہ کسی سے جلدی نہیں گھلتے ملتے تھے۔ ان کا بہت رعب اور دبدبہ تھا۔ میٹنگ میں سب ان سے نپی تلی گفتگو کرتے تھے ہر آدمی مختصر ترین الفاظ میں بات کرتا تھا۔ وہ کبھی نوائے وقت کی پانچ منزلہ عمارت میں کسی کو چیک کرنے نہیں آئے، نہ ہی عمارت میں کوئی خفیہ کیمرہ نصب تھا لیکن ہر شخص کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ انہیں نظامی صاحب کی آنکھ دیکھ رہی ہے۔ جب کبھی میں میٹنگ میں بیٹھی ہوتی تھی تو اپنی عادت کے مطابق اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرتی۔ مجھے دو تین بارمیرے سینئرز نے درمیان میں ٹوکا لیکن نظامی صاحب انہیں اشارے سے روک دیتے۔ ایک بار جب بے نظیر بھٹو اپوزیشن لیڈر تھیں تو میں نے ان کا انٹرویوکیا۔ بے نظیر بھٹو کے حوالے سے نظامی صاحب کو عجیب طرح کی خبریں پہنچائی گئی تھیں جب میں نے ایڈیشن تیار کر لیا اور نظامی صاحب نے دیکھا تو بولے کہ یہ ایڈیشن نہیں جانا چاہئے میں نے کہا کہ بے نظیر بھٹو نے صرف مجھے انٹرویو دیا ہے لاہور میں دو ہزار صحافی ہیں کسی اور کو تو نہیں دیا۔ یہ تو ہمارا کریڈٹ ہے۔ نواز شریف وزیراعظم ہیں میں نے تین ہفتے پہلے کلثوم نواز شریف کا انٹرویو پورے ایڈیشن پر لگایا تھا۔ وہ تو محض فرسٹ لیڈی ہیں لیکن بے نظیر بھٹو سابق وزیراعظم اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن ہیں امت مسلمہ کی پہلی خاتون وزیراعظم ہیں۔ یہ بہت بڑا کریڈٹ ہے۔ نظامی صاحب نے یہ سنا تو فوراً مان گئے۔ وہ ہر موقعہ پر میری ذہانت اور بہادری کو بڑھانے میں مددگار ہوتے تھے۔ ایسے کام کئے جو اس سے قبل نوائے وقت میں نہیں ہوئے تھے۔ نوائے وقت کے اندر اس حوالے سے مجھے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن صرف ایک شخص ہوتا تھا جو چٹان کی طرح میرے ساتھ کھڑا ہوتا تھا جو باپ کی طرح میرا سائبان بنا رہتا تھا۔ نظامی صاحب کی شفقتوں کا شمار نہیں۔ میری بہادری فطرتاً میرے وجود کا حصہ ہے لیکن اس کو مہمیز کرنے میں نظامی صاحب کا بڑا ہاتھ ہے۔ میں سچ مچ آنکھیں بند کرکے آگ کے سمندر میں چھلانگ لگا دیتی تھی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میری مدد کیلئے ایک باپ کی ہستی موجود ہے۔ نوائے وقت میں جاب کے دوران مجھے دوسرے اداروں میں پرکشش آفرز آئیں لیکن میں نے ہر پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ اس کی بڑی وجہ مجید نظامی مرحوم کی طلسماتی شخصیت تھی جو بھی شخص ایک بار ان سے مل لیتا تھا ان کا ہو جاتا تھا۔ وہ ہر کام ہر چیز ہر شخص پر نظر رکھتے تھے۔ بلاکے دوراندیش اور صاحب کردار آدمی تھے۔ جب وہ فوت ہوئے تو میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ مجھے لگا کہ میں یتیم ہو گئی ہوں لیکن ان کی یادوں کے خزانے ہمارے ساتھ ہیں۔ وہ مر کر بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38