ابلاغی محاذ کا قافلہ سالار ہم میں نہ رہا لیکن نظریہ پاکستان کے دفاع کے لئے ان کا مورچہ خالی نہیں ہے۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع کرتے کرتے وہ تن تنہا بروئے کار رہے کسی سے مدد مانگی نہ ہاتھ دراز کیا۔ جناب مجید نظامی اپنے برادر بزرگ حمید نظامی مرحوم ومغفور کے روشن نقوش پر چلتے رہے۔ ان کی پیروی کرتے رہے جنہوں نے ابلاغی اور صحافتی میدان میں اپنا مقدس فرض تادم مرگ پوری فرض شناسی ، ملی غیرت وحمیت کے بانکپن کے ساتھ نبھایا۔ وہ اس فرض کو زندگی کے ہر لمحے میں ہر چیز پر مقدم رکھ کر امر ہوگئے۔
امام صحافت جناب مجید نظامی نے عملاً ثابت کر دکھایا کہ نوائے وقت کوئی عام اخبار یاصحافتی ادارہ نہیں ’ یہ دراصل بانی پاکستان کا نظریاتی مورچہ ہے۔ یہ وہ پتوار ہے جو پاکستان کے سفینہ کو اس کی نظریاتی سمت برقرار رکھنے کے لئے بروئے کار آیا۔ جو23مارچ 1940ء کو برصغیر کے مسلمانوں کی نظریاتی منزل کا امین بن کر طلوع ہوا۔مجید نظامی حقیقی معنوں میں قلم کے مجاہداور امام صحافت تھے۔ 3اپریل1928ء کو اس دنیا میں آنکھ کھولنے والے امام صحافت نے 26 جولائی2014ء تک اس پرچم کو پورے اخلاص، استقامت اور شانِ رندانہ کے ساتھ تھامے رکھا جو مقدس امانت کے طورپر ان کو تھمایاگیا تھا۔ یہ وہ قلندر تھا جس نے نوائے وقت کونظریہ پاکستان کے مضبوط قلعے میں تبدیل کردیا۔ انہوں نے اس شان کو برقرار رکھا جو بانی پاکستان کا ایک نمایاں پہلو تھا۔
نظریہ اور اصول پر سمجھوتہ نہ کرنے کی روشن اقدار پر پوری دیانتداری سے کاربند رہے۔ مفادات کی چکا چوند میں چوکڑی بھول جانے والوں کے بالکل برعکس راہ اپناتے ہوئے انہوں نے کلمہ حق کہتے ہوئے وردی، شیروانی یا رشتے ناطے کو آڑ نہ بننے دیا۔جہاں بڑے بڑے جغادری لبوں کو سی کر مصلحت کی چادر اوڑھ لیاکرتے، دھان پان نظرآنے والے مجید نظامی کی گرجدار آواز پورے طنطنے، دبدبے اور ہم ہمے سے صاف مدعا بیان کردیتی کہ ایوب خان جیسی رعب دار شخصیت بھی لاجواب ہوجاتی۔ خود بتایا کرتے تھے کہ نواب آف کالاباغ جناب حمید نظامی کی وفات کے افسوس کے لئے آئے، کہنے لگے مرد بن کے دکھانا اسی راہ پر چلنا’ بڑے دھیرج سے گویا ہوئے آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔ پھر زمانے نے دیکھا کہ جناب مجید نظامی نے حق ادا کردیا۔
مجید نظامی کسی کھوکھلے وجود، مصنوعی دعووں یا وقتی اور عارضی بہائو کا نام نہ تھا۔ وہ ایک پیہم رواں جھرنا تھا۔ اس کے خیال کی لہر اْجلے پانیوں کا وجود رکھتی تھیں۔ اْس کے نزدیک جدت خیال یہی تھا کہ وہ اپنے نظریہ پر برقرار رہے۔ صحافتی شعبہ میں کٹڑنظریاتی کہلانے والے مجید نظامی نے جدید ٹیکنالوجی اور عصری رجحانات سے اخبار کو ہم آہنگ کیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی سروس حاصل کی اور خاص طور پر نوائے وقت میں اس کے استعمال کو یقینی بنایا۔ کسی کو رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ وہ ان جدید عصری میلانات کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید زمانے کی ضروریات کو بھرپور قوت سے بروئے کار لائے۔ انہوں نے نظریاتی محاذ کو جدید زمانوں سے کاٹ کر الگ جزیرہ نہیں بننے دیا بلکہ پوری قوت سے رزم گاہ میں اترے تو جدید ابلاغی ہتھیاروں سے لیس ہوئے البتہ ان کی نظریاتی سمت کوئی آندھی، کوئی طوفان، کوئی دباؤ، کوئی چمک تبدیل نہ کراسکی بلکہ یہ کہاجائے کہ کسی کو اتنی جرات بھی کبھی نہ ہوئی کہ مجید نظامی ایسے درویش کی موجودگی میں نظریہ پاکستان کی نیو بدلنے کی فکر باطل کا اظہار بھی کرسکے۔فکری اعتبار سے جناب نظامی منفرد مزاج رکھتے تھے۔جناب نواز شریف‘ مرحوم غلام اسحٰق خاں کے ساتھ الجھے ہوئے تھے۔ اس وقت کے سپہ سالار جنرل وحید کاکڑ صدر اور وزیراعظم میں بیچ بچائو کی کوششیں کر رہے تھے کہ معاملہ صدر اور وزیر اعظم کے مستعفی ہونے تک پہنچ گیا۔ نواز شریف نے جناب نظامی سے رہنمائی کی درخواست کی توانھوں نے کہا کہ جنرل کاکڑ کو آپ سے استعفیٰ طلب کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ آپ انھیں برطرف کر دیں خیر نواز شریف نے جنرل کاکڑ کو کیا برطرف کرنا تھابعد ازاں معاہدے کے تحت مرحوم غلام اسحق خاں اور نواز شریف مستعفی ہو گئے، سیاسی بحران ختم ہو گیا۔ سپہ سالار سے مدیران کی ان ہی دنوں ہونے والی ملاقات کے آغاز پر جنرل کاکڑ نے اچانک استفسار کیا کہ آپ میں سے کس دلیر ایڈیٹر نے نواز شریف کو مجھے برطرف کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
جناب نظامی صاحب بتایا کرتے تھے میں فوراً کھڑا ہو گیا ’جنرل صاحب میں نواز شریف نوں ایہہ مشورہ دتا سی‘ شاید جنرل وحید کاکڑ کو ایسی جرات انداز کی توقع نہیں تھی‘ اس لیے پہلو بچا کر نکل گئے۔پاکستان کی جوہری قوت کے اظہار کا تمغہ مجید نظامی کے سینے پر سجا ہے۔ اگرچہ وہ تمام اہل ہنر اور محب وطن ہمارے محسن ہیں جنہوں نے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے اور مکار دشمن کے کلیجے کو چیرنے کا جوہری اقدام کیاتھا۔ وہ تمام لوگ جو اس عظیم کامیابی میں شامل رہے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے لے کر آج تک جتنے افراد بھی اس کارخیر کا حصہ تھے، ہمارے ہیروز ہیں۔ لیکن 28 مئی 1998ء کو بھارتی ایٹمی دریدہ دہنی کا جواب پاکستان نے جوابی جوہری دھماکوں سے دیا تو نوازشریف کے سینے میں یہ قوت بھرنے والی بلند آہنگ مجاہدانہ آواز جناب مجید نظامی کی تھی جنہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر دو ٹوک انداز میں اس وقت کے وزیراعظم سے یہ تاریخی جملہ کہاکہ ’جناب وزیراعظم آپ دھماکہ کریں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کردے گی۔‘ یہ وہ تاریخی حقیقت تھی جس کا جواب کسی مصلحت کیش کے پاس نہ تھا۔ کسی کو یارا نہ تھا کہ مرد قلندر کے سامنے کوئی احمقانہ دلیل، یا مصلحانہ دانشوری کا بے وزن استدلال پیش کرے۔
ویسے ایسے وارداتیے ہر وقت موجود ہوتے ہیں جو پکی پکائی پر ختم شریف پڑھنے پہنچ جاتے رہے ہیں۔ ایک صاحب جو بوجوہ ایٹمی دھماکوں کے شدید مخالف تھے بدلے ہوئے حالات میں ٹھیک ایک سال یوم تکبیر کی تقریبات منانے والی کمیٹی کے سربراہ بن بیٹھے اور بعدازاں جاتے جاتے لبرٹی پٹرول پمپ لے ڈوبے۔ اربوں روپے مالیت کی زمیں کی لیز کی توسیع در توسیع کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔جناب مجید نظامی اپنے نظریاتی پن میں جس قدر دلیر اور شجاع تھے وہی شدت مخالف نظریات رکھنے والوں کے ساتھ کسی ناانصافی پر بھی ان کے لہجے میں در آتی۔
یہی وہ بزرگ تھے جنہوں نے ہر طرف سے طعنہ وتشنیع کا شکار، بدعنوانی کے برستے پتھروں میں آصف علی زرداری کو مردحْر کا لقب دے کر حکومت وقت کو شرم دلائی۔ مجید نظامی کے اس لفظ نے آصف زرداری کے بارے میں لوگوں کی سوچ کو یک دم تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اس کی وجہ ان کی مسلسل جیل میں ثابت قدمی تھی وہ بتایا کرتے تھے۔ یہ وہ شخصیت تھی جس نے نظریاتی محاذ پر ڈٹ کر پیپلزپارٹی کے تیروں کا مقابلہ کیاتھا لیکن جب انہوں نے انصاف کے پلڑے جھولتے دیکھے اور مخالف فریق پر استبدادی رویوں کی یلغار دیکھی تو وہ اس ناانصافی پر خاموش نہ رہ سکے۔
وہ ایک دبستان تھے جس کے کئی باب اور کئی سنگ ہائے میل ہیں۔ ان کے سفرزندگی میں ان گنت کامیابیوں کے روشن ابواب ہیں۔ اْن کی زندگی جس قدر سادہ تھی، اسی قدر پروقار تھی۔ اْن کا موقف جس قدر ٹھوس اور جراتمندانہ ہوتا، ان کا رعب بڑے بڑوں کا پتہ پانی کرنے کو کافی تھا لیکن ذاتی زندگی میں وہ اسی قدر حلیم، وسیع النظر، وسیع القلب، اختلافی نکتہ نظر کو خندہ پیشانی اور دلربا مسکراہٹ سے خوش آمدید کہنے والے تھے۔ اْن کے احسانات کی بھی ایک طویل تاریخ ہے جو انہوں نے مختلف اوقات اور مراحل پر بڑے بڑے نظرآنے والے لوگوں پر کئے۔ یہ سلسلہ خود کو بڑے بڑے خطابات سے ڈھانپنے والوں تک محدود نہ تھا، اس میں مجھ ایسے عامی بھی تھے۔ وہ جن کا کوئی کنارہ نہ تھا، ہر منجدھار میں مجید نظامی ان کے لئے مضبوط لنگر بن جایا کرتے۔جب طاقت، جاہ وحشم کے نشہ میں مست ہوکر کوئی ان کے سپاہی، کمزور کو دبانے کو بڑھتا، ان کے سامنے مجید نظامی شیر کی طرح کھڑا ہوجاتا۔ وہ کمزور کے لئے جائے اماں، مہرباں نخلستاں بن جاتے۔ وہ زندگی کو ماضی کے زخموں کی بنیاد پر نہ دیکھتے بلکہ حال میں بے حال کی صورتحال کو دیکھ کر برعکس رویہ اپناتے کہ پریشان زخم خوردہ بھی سوچنے پر مجبور ہوجاتے اور اس بڑے انسان کے بڑے کردار کے پھر عمر بھر معترف بن جاتے۔ انہوں نے نظریہ پاکستان کا محاذ خالی نہ چھوڑا۔ اسے ادارہ جاتی شکل میں سینچا اور سنوارا۔ علامہ اقبال کی فکر کی ترویج ان کی زندگی بھر کی کمائی رہی۔ بابائے قوم کی امانت جو ان کے بڑے بھائی کے ذریعے سے ان تک منتقل ہوئی تھی، بڑی محنت، ریاضت اور عرق ریزی سے حفاظت پر مامور رہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے تحریک پاکستان کے کارکنوں، مشاہیر اور اس کاز سے وابستہ افراد کی مستقل بنیادوں پر حوصلہ افزائی جاری رکھی۔ آخری سانس تک نظریہ پاکستان، تحریک پاکستان اور پاکستان سے وابستہ تمام نشانیاں مجید نظامی کی معرفت ممتاز ہوتی رہیں۔ یہاں تک کہ نظریہ پاکستان کی شناخت اور علامت ہی مجید نظامی اور نوائے وقت بن گیا۔ پھر یہ سلسلہ صرف نوائے وقت تک نہ رْکا بلکہ اس بے مثال ادارے سے اور بھی جو پھول، کونپلیں اور شاخیں پھوٹیں ان سب میں نظریہ پاکستان کی خوشبو رچی بسی تھی۔ جناب مجید نظامی نے دھڑلے سے اپنے آپ کو ‘‘جانبدار’’ صحافی لکھا اور قرار دیا اور آخری سانس تک پاکستان کا نظریاتی پرچم سربلند رکھا۔
مسلم لیگ، افسوس حروف تہجی اور غریبوں میں بٹتی دال کی مانند حرف گریہ بن کررہ گئی۔ جس کا مرد قلندر کو دلی رنج بھی تھا۔ وہ قائداعظم کے مشن والی مسلم لیگ کا خواب سینے سے لگائے، جہان فانی سے ابدی منزل کو روانہ ہوئے۔ بزرگ آنکھوں میں جوانی کی چمک باقی رہی، جس میں انتظار کا کرب شامل تھا کہ مسلم لیگیں، اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مفادات سے تعمیر بیٹھکیں ختم کرکے نظریہ پاکستان کی چھتری تلے جمع ہوجائیں۔ نظریہ پاکستان کی کشتی میں سوار ہوجائیں۔ مفادات کی حرص وہوس پر دو حرف بھیج کر بڑے مقصد کے لئے آگے آئیں لیکن بونوں کے دیس میں اس ’ون مین آرمی‘ کی بصیرت نہ سمجھی گئی۔
٭…٭…٭
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024