نظامی صاحب! پاکستان آپ کو بہت مس کرتا ہے
غلام شبیر ساقی
وہ جب تک زندہ رہا دھرتی کا وفادار،خوددار اور غیوربیٹابن کرزندہ رہا۔دھرتی کو ماںسمجھنے والوںکا جب بھی زکرہو گا تو تاریخ اسے محبان وطن کا امام کہہ کرپکارے گی۔پاکستان سے لازوا ل اور بے پناہ محبت اسے ورثے میںملی تھی،اس کی رگوں میںدوڑنے والا خون ملی غیرت و حمیت میں کھول اٹھتا اوراس کے سینے میں دھڑکنے والا دل پاکستان کی آن بان اور شان وشوکت کے ساتھ خوش ہوتا اور جب کبھی ملک پرکوئی آزمائش یا کڑا وقت آتاتوجذبہء حب الوطنی اس کے دل کو گرما دیتا۔ساری زندگی پاکستان زندہ باد۔پاکستان کا مطلب کیا،لاالہ الا اللہ۔تیرا میرا رشتہ کیا ،لا الہ الا اللہ کے نعرے لگانے اور لگوانے والا ہمارا اثاثہ،ہمارامحسن ہماراخیر خواہ مجید نظامی ہماری قوم کا حقیقی محسن ہے جس نے حصو ل پاکستان سے تکمیل پاکستان تک کی ہر تحریک میں قابل فخر اور ہمیشہ یاد رہنے والاقابل رشک کردار ادا کیا۔میں یہ کہنے میںکوئی عار محسوس نہیں کرتا کہ حصول پاکستان سے پہلے آذادی کے لئے جدوجہد کرنے اور قربانیاںدینے والوں کی تعداد جس قدر ذیادہ تھی پاکستان بن جانے کے بعد اس دھرتی سے پیار اور شہیدوں کے لہو سے وفاکرنے والوں کی تعداد اتنی ہی کم ہے اور ان نایاب وفاداران ارض پاک میںمجید نظامی مرحوم کو خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے۔
مجید نظامی صاحب جیسی عظیم ہستیاںملک و قوم کے لیے قدرت کا خاصانعام ہوا کرتی ہیں۔نظامی صاحب نے ساری زندگی محبت پاکستان کی شمع جلائے رکھی ،آپ نے نظریۂ پاکستان کے فروغ و تحفظ کے لئے دن رات ایک کر دیاآپ بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒاور مفکر پاکستان حضرت ڈاکڑعلامہ محمد اقبالؒکے سچے اور پکے سپاہی تھے۔آپ کی عظمت کا اعتراف بلاتفریق پوری قوم کررہی ہے اور یہ سب عزت و تکریم آپ کے اخلاص اور دیانت داری کا ثبوت ہے۔بلکہ ایک حقیقت تو یہ بھی ہے کہ نظامی صاحب جیسی عظیم ہستیوں کو ہم جیسے لوگ جتنا بھی خراج عقیدت پیش کر لیںکم ہے۔مگرمیں اسے اپنے لئے اعزاز اور خوش قسمتی ہی سمجھوںگا کہ ایسی عظیم اوربے مثال محب وطن ہستی کے ساتھ کچھ وقت گزارنے اور آپ کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا شرف حاصل ہوا۔
نظامی صاحب سے راقم کی صرف ایک ملاقات ہوئی اور وہ لمحات سرمایہء زیست ہیںغلام حیدر وائیںشہید (سابق وزیراعلی پنجاب) کی برسی کی تقریب کااہتمام نظریہ پاکستان ٹرسٹ نے کیا ہوا تھا۔مال روڈلاہور پر تعمیرشدہ ایوان کارکنان کا ہال شرکاء کی کثیر تعدادسے بھر چکا تھا۔نظامی صاحب تقریب کی صدارت کر رہے تھے جب کے فرزند شاعر مشرق جاوید اقبال جسٹس( ر)اور وائیںشہید کی بیوہ و سیاسی جانشیںمجیدہ وائیں مہمانان خصوصی کی نششتوں پر تشریف فرماتھے۔تب نظامی صاحب کی طبیعت بھی قدرے بہتر تھی آپ نے کافی مفصل خطاب کیا۔آپ کا لہجہ چونکہ بہت شفیق تھااور آپ بہت سے اہم اورقومی معاملات پرروشنی ڈال رہے تھے تو ہال میں موجود ہر شخص پوری توجہ سے نظامی کی باتیںسن رہاتھا بلکہ یوںکہئے کہ ہر کوئی مگن تھا۔
نظامی صاحب کا انداز بیاںاسقدر دلکش تھا کے ان کے کہے ہوئے الفاظ آج بھی راقم کو حرف حرف یاد ہیں۔آپ ہماری قومی زبان اردو اور ماں بولی پنجابی دونوںمیں اظہارخیال فرمارہے تھے۔آپکی ساری تقریر میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں تھاجو سننے والوںپہ بار گزرتا۔یعنی آپ کی باتیں انتہائی آسان فہم تھیں۔ان دنوںمشرف کی آمریت عروج پرتھی ہمارے سیاستدان،ہمارا میڈیا حتی کہ ہماری عدلیہ تک آمر کے زیر اثر تھی میا ں برادران جلاوطنی کاٹ رہے تھے۔نظامی صاحب نے واشگاف اور دو ٹوک لفظوںمیںمشرف کو اس کے اقتدار میں بد ترین آمرکہا توہال میںموجود سبھی شرکائے برسی کی آنکھوں میں چمک دکھا ئی دی۔نظامی صاحب کی باتیں دراصل صدائے حق تھی یہ سب باتیں بہت سے لوگ کرنا چاہتے تھے مگر جابر کے سامنے کلمہء حق کہنے کی جرات اور توفیق صرف مجید نظامی کو ہی تھی۔نظامی صاحب کی شعلہ نوائی ان کے رفقاء کے لئے کوئی نئی یا انہونی بات نہ تھی ہاں البتہ وہ کچھ قومی معاملات پر اظہار خیال کرتے ہوئے شرکا کوایسے کڑوے سچ بھی بتلا رہے تھے جواس سے قبل بہت کم یاچند لوگوںکے علم میں تھے مثلا ایٹمی دھماکے کرنے کے حوالے سے حتمی فیصلہ کرتے وقت میاں صاحب کے جذبات اور کلمات کیا تھے۔
نظامی صاحب نے نوجوان نسل میں نظریہء پاکستان کے ٖفروغ،اس کی اہمیت اور ضرورت کا احساس پیدا کرنے پر بھی بہت زور دیا۔آ پ نے آزادی کی قدر اور ملک و قوم کی تن من دھن سے خدمت کے جذبے کو نسل نو میںاجاگر کرنے کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔