کچھ عرصہ ہچکچاہٹ کے بعد آخر کار جنرل پروےز مشرف پاکستان پہنچ ہی کہا سنا جاتا ہے کہ اس مرتبہ بھی ملک کے اندر اور ملک سے باہر ان کے کئی دوستوں اور بہی خواہوں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ ابھی ان کو پاکستان نہیں جانا چاہیئے اور مناسب وقت کا انتظار کرنا چاہیئے مگر وہ سب کی سنی ان سنی کرتے ہوئے 24 مارچ کو کراچی پہنچ گئے لےکن ان کی تمام توقعات کے بر عکس نہ کوئی فقیدالمثال استقبال ہو سکا اورنہ ہی کوئی میلوں لمبا جلوس۔
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے وہ اپنی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ کو پوری طرح منظم نہیں کر سکے مگر ساتھ ہی یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی جماعت یونین لیول سے لے کر ڈسٹرکٹ اور صوبائی سطح تک منظم ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی جماعت 11 مئی کو ہونے والے انتخابات میں بھر پور حصہ لے گی مگر ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اپنی جماعت کے بہت سے امیدواروں کو وہ بالکل نہیں جانتے اور نہ ہی ان کی شکلوں سے واقف ہیں کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی آخری تاریخ 29 مارچ ہے اس دن تک ان کے کتنے امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروا سکیں گے اس کا بہت جلد پتہ چل جائے گا البتہ اپنے کاغذات نامزدگی وہ چترال قصور اور کراچی کے حلقوں سے جمع کروائیں گے ان کی پریس کانفرنس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ نہ تو انہوں نے اور نہ ہی ان کی جماعت نے انتخابات میں حصہ لےنے کےلئے کوئی تیاری کی ہوئی ہے ان حالات میں جو نتیجہ نکلے گا وہ تو صاف نظر آ رہا ہے۔
مجھے تو ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ ایک بے وقت کی راگنی گانے پاکستان کیوں چلے آئے ؟ میں ہمےشہ سے کہتا چلا آرہا ہوں کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ختم کرکے قانون اور آئین کی بالا دستی قائم کرناہے اور جنرل پروےز مشرف پاکستان کے واحد حکمران ہیں جنہوں نے اپنے زمانہ اقتدار میں انتہا پسندوں کے خلاف سنجیدگی سے کاروائی کی اس قت تو ان کو ہر قسم کی حکومتی سیکیورٹی مہیا تھی اس کے باوجود ان انتہا پسندوں اور دہشت گردوں نے ان پر کئی خود کش حملے کئے جن میں وہ بال بال بچ جاتے رہے لےکن آج وہ صورت حال نہیں ہے اس لئے جب تک وہ یہاں رہیں گے ان کی زندگی کو مسلسل خطرہ رہے گا۔
مےرے خیال میں اپنا نیا سیاسی سفر شروع کرنے سے پہلے اگر وہ اپنی پریس کانفرنس میں ماضی میں کی گئی اپنی تمام غلطیوں کا خوش دلی سے اعتراف کرلےتے خصوصاً مارچ 2007 میں جس طرح انہوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو اپنے آرمی ہیڈکوارٹرز بلا کر باوردی جرنیلوں کے سامنے ان پر مسلسل گھنٹوں دباو¿ ڈال کر ان سے استعفیٰ لےنے کی کوشش کی تھی اور اس کے بعد نومبر 2007 میں انہیں ان کے تمام ساتھی ججوں سمےت گھروں میں نظر بند کر دیا تھا اپنے اس گھناو¿نے فعل پر اگر وہ ان تمام ججوں اور پوری قوم سے معافی مانگ لےتے تو اس سے ان کا قد اور بھی اونچا ہوسکتا تھا لےکن اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے وہ اپنے ہر فعل کو جائز قرار دےنے پر بضد رہے اور ساتھ ساتھ حقائق کو بھی جھٹلاتے رہے۔
نواب محمد اکبر خان بگٹی کا معاملہ ذرا مختلف ہے مرحوم کا شمار بلوچستان کے ان لیڈروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اگست 1947 میں بلوچستان کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی بھر پور حمایت کی تھی سوئی گیس چونکہ ان کے علاقے سے نکلتی تھی اس لئے اس کی رائلٹی انہیں شروع دن سے مل رہی تھی جس میں گاہے گاہے اضافہ بھی ہوتا رہتا تھا یہ بھی درست ہے کہ وہ اس رائلٹی میں بہت زیادہ اضافہ چاہتے تھے یہ ایسے مسائل تھے جن کو گفت و شنید سے طے کیا جا سکتا تھا تو پھر نوبت ان کی شہادت تک کیوں پہنچی؟ اس کےلئے ایک آزاد اور ذمہ دار کمیشن کا قیام ضروری ہے جو اس معاملے کی مکمل تحقیق کرکے ہمیں بتلائے کہ ان کی شہادت میں جنرل مشرف کا کیا رول تھا؟
ایک اور بات جس کی سمجھ نہیں آ رہی وہ یہ ہے کہ میاں نواز شریف جو پچھلے چار سالوں سے جنرل پروےز مشرف کے خلاف پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 6 کے مطابق غداری کا مقدمہ چلائے جانے پر مسلسل زور دےتے رہے ہیں وہ جنرل صاحب کے واپس پاکستان آجانے کے باوجود کیوں خاموش ہیں کیا ان پر کسی بےرونی طاقت نے کوئی دباو¿ ڈالا ہے یا وہ کسی سیاسی مصلحت کے تحت زبان بند کئے بیٹھے ہیں؟ کچھ دانشور سمجھتے ہیں کہ جنرل مشرف سعودی عرب اور امریکی آشیر باد کے بغیر پاکستان واپس آ ہی نہیں سکتے تھے اگر یہ درست ہے تو ان انتخابات میں ان کے کیا مفادات ہیں؟ میں ان دونوں طاقتوں کو تحریک طالبان پاکستان کی پشت پناہ سمجھتا ہوں کیا ان طاقتوں نے تحریک طالبان پاکستان کو جنرل پروےز مشرف کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے روکا ہوا ہے یا جنرل صاحب کے خیالات میں کوئی تبدیلی آگئی ہے؟ ایسے اور بھی بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب ابھی نہیں مل رہا بحر حال انتخابات 11 مئی کو ہو رہے ہیں ان کے بعد ممکن ہے کہ ہمیں ان سوالوں کے جواب مل جائیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38