28 نجی پاور کمپنیوں سے معاہدے حکومت کا ایک اور انقلابی قدم
فرزانہ چودھری
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت قائم ہوئے دو سال ہوچکے ہیں۔ حکومت بننے پر زیادہ تر عوام نے بھنگڑے ڈالے کہ اب نیا پاکستان بنے گالیکن دو سالوں میں نیا پاکستان تو نہ بن سکا مگر نئے پاکستان کی ابتدا ضرور ہوچکی ہے۔ عوام جانتی ہے کہ عمران خان کواقتدار کے ساتھ ایک توماضی کی حکومتوں کا قرض اور دوسرا پاور سیکٹر کا بوجھ ملا، بجلی مہنگی ہونے سے ملکی صنعت دیگر ممالک کا مقابلہ نہیں کرپارہی تھی اور عوام مہنگائی کی چکی میں پِسنے لگے ۔
بے نظیر حکومت نے 1997ء میں28نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ میں معاہدے کئے جس کے نتیجہ میں بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے ان 28نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ ازسرنو معاہدے سے قوم کو تقریباً سالانہ 400ارب روپے کی بچت ہوگی اور عوام کوسستی بجلی ملے گی۔ اگر ماضی اور موجودہ حکومت کی کارکردگی کاصرف نجی بجلی گھروں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کے حوالے سے موزانہ کیا جائے تو قوم کو واضح فرق نظر آئے گا۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف نے اپنے دور حکومت میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے 30کمپنیوں سے ونڈ پاور پلانٹس لگانے کا معاہدہ کیا یہ معاہدہ 30 پاور پلانٹس لگانے کا تھا اور میاں نواز شریف نے یہ معاہدہ 130 ملین ڈالرز میں کیا تھا اورایک پاور پلانٹ کی قیمت 13 کروڑ ڈالر مقرر ہوئی ۔ ایک پاور پلانٹ 30 فیصد بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اُس وقت انٹرنیشنل سطح پر 30 پاور پلانٹس کی قیمت 60 ملین ڈالر تھی مگر نواز شریف نے 130 ملین ڈالر میں یہ معاہدہ کیااور میاں صاحب نے باقی 70 ملین ڈالر ان کمپنیوں سے بیرون ممالک میں کک بیکس کے ذریعے اپنے اکاؤنٹس میں جمع کروا لیا اور قوم کو 21 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی ملنے لگی۔ وزیراعظم عمران خان نے10 نئی کمپنیوں سے اسی ونڈ پاورپلانٹس کا معاہدہ 60 ملین ڈالر میں کیا اور ایک پاور پلانٹ کی قیمت 6 کروڑ ڈالر طے ہوئی ہے اور ایک پاور پلانٹ کی پیداواری صلاحیت 37 فیصد ہے اس لیے قوم کو بجلی 6 روپے فی یونٹ کے حساب سے ملے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ بجلی سستی ہوگئی توملکی پروڈکشن بڑھے گی تو پھر پاکستان کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پاکستان کی معیشت کا چائنا ،انڈیا اوربنگلادیش کے ساتھ مقابلہ میں ایک ہی چیز بجلی کی قیمت ہے۔ پاکستان میں بجلی کی قیمت کم ہو نے سے پاکستان دنیا میں ایک نیا تجارتی کھلاڑی بن سکتا ہے۔ جب وزیر اعظم عمران خان نے نجی پاور کمپنیوں سے سستی بجلی کے معاہدے کی خوشخبری جشن آزادی کے روزسنائی تو عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، اہم بات یہ بھی کہ یہ معاہدے ہونے سے پاکستان ڈیفالٹ سے محفوظ ہوگیا اور عوام بڑی مہنگائی سے بچ گئے۔ صنعتوں اور عوام کو سستی بجلی ملنے سے ملک معاشی ترقی کی طرف گامزن ہو گا ۔
آئی پی پیز اور حکومت کے مابین دستخط ہونے والے ایم او یو کی تفصیلات کے مطابق حکومت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادائیگی ڈالر کی بجائے روپے میں کرے گی۔ پاور پلانٹس کے آپریشن اور دیکھ بھال کی مد میں اخراجات کم ہوں گے اور لیٹ سرچارج میں 2.5فیصد کمی لائی جا رہی ہے۔ابتدائی طور پر 2002 ء کی پالیسی کے تحت لگنے والے پاور یونٹوں کے ساتھ یہ بھی طے پایا ہے کہ روپے میں ادائیگی کی صورت میں ڈالر کی زیادہ سے زیادہ قدر 145روپے ہو گی جس سے مستقبل میں روپے کی قدر میں کمی کے باوجود حکومت پر ادائیگیوں کے بوجھ میں اضافہ نہیں ہو گا۔نئی شرائط میں اس امر پر اتفاق کیا گیا ہے کہ حکومت پاور پلانٹس کی صلاحیت کی جانچ پڑتال کے لئے ہیٹ ریٹ ٹیسٹ کرے گی جس میں نجی بجلی گھر حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں گے۔ دونوں طرف سے اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ براہ راست صارفین کو منتقل کیا جائے گا۔کھاتوں کے جائزے کے بعد واجبات کی ادائیگی یا وصولیوں کی صورت میں نیپرا مجاز اتھارٹی ہو گی۔ فیول ایفیشنسی پرزائدمنافع حکومت کیساتھ تقسیم ہوگا۔ پاورپلانٹس کی اخراجات میں بچت حکومت کیساتھ چالیس فیصد تک تقسیم ہوگی۔ بلاشبہ یہ معاہدے وزیراعظم عمران خان کی کاوش کا نتیجہ ہے جوملکی معیشت کی ترقی کے لیے ایک انقلابی قدم ہے ۔
وزیراعظم عمران خان کی حکومت اس کریڈٹ کی بھی مستحق ہے کہ پاکستان 2 سال پہلے کی سفارتی تنہائی سے بھی نکل آیا ہے۔اب خطے میں بھارت سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔تمام سارک ممالک بھارت سے شاکی ہیں۔پاکستان کا امریکا یورپ مشرق وسطیٰ میں مقام بحال ہوگیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ملک کیلئے انقلابی اقدامات اٹھائے اوریہ ماننا پڑے گا کہ عمران خان ملک وقوم کے ساتھ مخلص ہیں۔ملک میں مہنگائی اور معاشی حالات کی سنگینی کے باوجود موجودہ حکومت نے ایسے بہت سے اچھے کام بھی کیے ہیںجو ماضی کی حکومتیں برسوں سے نہیں کرسکیں۔اس حکومت کی سب سے بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ کاخسارہ 30 فیصد کم ہوگیا ہے۔ جولائی 2020ء کے دوران پاکستان کے تجارتی خسارہ میں 187 ملین ڈالر کمی ہوئی ہے۔ اس دوران ملکی برآمدات میں 6.04 فیصد اضافہ جبکہ درآمدات میں 1.97 فیصد کمی ہوئی ہے۔ ادارہ برائے شماریات پاکستان (پی بی ایس ) کے اعدادوشمار کے مطابق جولائی 2020ء کے دوران پاکستان کا تجارتی خسارہ1.640 ارب ڈالر تک کم ہوگیا جبکہ جولائی 2019ء کے دوران ملک کا تجارتی خسارہ1.827 ارب ڈالر تھا۔ اس طرح برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی کے باعث تجارتی خسارہ میں 18کروڑ70 لاکھ ڈالر کی کمی سے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ممکن ہوئی ہے۔کوروناوائرس کے باوجود جولائی 2019ء کے مقابلے جولائی 2020 ء میں ٹیکسٹائل برآمدات میں 15 فیصد کا اضافہ ہوگیا ہے۔ کوروناوائرس نے دنیا بھر کی معیشتوں کو شدید متاثر کیا مگر عالمی وبا کے باوجود پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں بہتری آنے سے ٹیکسٹائل سیکٹر کی ایکسپورٹ میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ حکومت کی دوسری اہم کامیابی یہ ہے کہ حکومت نے اب تک 10 ارب ڈالر کا غیر ملکی قرضہ واپس کردیا ہے۔ ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے بڑے عرصے کے بعد نئے ڈیم کی بنیاد رکھی گئی ہے اور اس سلسلے میں مہمند ڈیم پر کام شروع ہوچکا ہے۔ ڈویلپمنٹ پراجیکٹس اور بڑے ٹرانسپورٹ منصوبوں کے سنگ بنیاد رکھنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس میں تازہ ترین پیش کش راوی ریور فرنٹ کے نام سے نیاشہرآباد کرنے کا منصوبہ ہے۔
٭٭٭٭٭