اتحاد بین المسلمین ۔ وقت کی اہم ترین ضرورت
وطن عزیز میں ہرسال محرم الحرام کی آمد سے قبل تمام ریاستی مشینری پوری طرح فعال ہوجاتی ہے ۔ انتظامیہ کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں ۔ امن وامان برقرار رکھنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں ۔ قانون نافذکرنے والے ادارے پوری طرح چوکنا ہوتے ہیں اور فوج بھی ان کی پشت پر موجود رہتی ہے ۔ کسی بھی ناخوش گوار واقعہ سے بچنے کے لیے فول پروف سیکیورٹی کا انتظام کیاجاتاہے ۔ مختلف مکاتب فکر کے علماء و مفتیان شرعِ متین کے اجلاس بلائے جاتے ہیں ۔محرم الحرام کے جلوسوں کے حوالے سے ضابطۂ اخلاق جاری کیاجاتاہے۔ بعض خطباء اسلام کی زبان بندی کے احکامات جاری ہوتے ہیں ۔ یومِ عاشورہ کا پُرامن انعقاد یقیناََ ریاست کے لیے ایک گھمبیر چیلنج ہوتاہے ۔ تمام تر اقدامات کے باوجود کہیں نہ کوئی کوئی ایسا نا خوش گوار واقعہ ضرور ہوجاتا ہے جو بسا اوقات فرقہ وارانہ فسادات کا موجب بنتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ آخر کیوں ہمارے ہاں محرّم الحرام کے پاکیزہ ایّام میں ایسی نفرت انگیز تقاریر کی جاتی ہیں جن سے ملک کا امن و امان داؤ پر لگ جاتا ہے ؟ اس کا واضح سا جواب تو یہ ہے کہ پاکستان کا امن و امان دشمن ممالک کی آنکھ میںکانٹابن کر کھٹکتا ہے ۔ہمارے دشمن ہر قیمت پر یہاں افتراق و انتشار کی فضاپیدا کرنے چاہتے ہیں ۔ چنانچہ ان مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے وہ باقاعدہ یہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں ۔ نفرتوں کے سوداگر تیار کرتے ہیں جو اپنی زبانوں سے ایسی آگ اُگلتے ہیں کہ خدا کی پناہ ! سادہ لوح عوام ان کی شعلہ بیانی کے سحر میں آکر ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں اور اس فرقہ واریت کو معرکۂ حق و باطل سمجھ کر لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں ۔ اس ساری صورتحال میں سوشل میڈیا ایک میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگتا ہے ۔ کافر کافر اور گالی گلوچ کے رجحانات عام دکھائی دیتے ہیں ۔ ایک معقول آدمی سرپکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ خدایا اس قوم کو کیا ہوگیا ہے ۔ لیکن اس ساری فتنہ سامانی کے پیچھے موجود شیطانی قوتیں ابلیسی نظام مستحکم ہونے پر خوشیوں کے شادیانے بجاتی ہیں ۔
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخلِ کہن کو سر نگوں !
تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ قوموں کے عروج و زوال اور تنزلی و ترقی میں اتحاد و اتفاق اور انتشار و افتراق کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔ جب تک کسی قوم میں اتحاد و اتفاق موجود رہتا ہے ، وہ ہرمیدانِ عمل میں فتح و نصرت کے جھنڈے گاڑتی چلی جاتی ہے ۔ جیسے ہی اتحاد کی جگہ افتراق اور اتفاق کی جگہ انتشار پھیلنے لگتا ہے تو ہزیمت و شکست ایسی قوم کا مقدر بن جایا کرتی ہے ۔ قوم جب اتفاق کھو بیٹھتی ہے تو در اصل اپنی تمام تر جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنا قومی اور ملی وجود برقرار رکھنے کے لیے باہمی اتحاد کا راستہ اپنانے کی ازحد ضرورت ہے ۔ اتحاد ایک زبردست قوت اور ایک طاقت ور ہتھیا ر ہے جس کے ذریعے ناممکن مسائل سے نبرد آزما ہوا جاسکتا ہے ۔ اسلامی عبادات میں اجتماعیت کے تصور کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔جمعہ و عیدین کے اجتماعات ملتِ اسلامیہ کے باہمی اتحاد کا خوب صورت مظہر ہیں۔ اسی طرح فریضہ ٔ حج کی ادائیگی بھی مسلمان قوم کی وحدت و مساوات کی سب سے بڑی نشانی ہے ۔اتنے بڑے اجتماعات میں ایک ہی امام کے پیچھے نمازیں ادا کرنے کے باوجود ہماری صفوں سے نفرت و افتراق کی فضا ختم ہونے کا نام کیوں نہیں لے رہی؟
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں صحیح معنوں میں اتحاد و اتفاق کی تحریک اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب وہ اپنے مسلکی اور جزوی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اسلامی وحدت و اخوت کو مضبوط و مستحکم کریں ۔ یہ کہنا آسان ہے لیکن اس پر عمل پیرا ہونا نہایت مشکل ۔ بالخصوص جن طبقات کی روزی روٹی ہی فرقہ وارانہ فسادات پھیلانے سے وابستہ ہے وہ اتحاد بین المسلمین کی سکیم کو کیوں کر کامیاب ہونے دیں گے ؟ لہٰذا یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے مابین اتحاد و اتفاق محض پُر زور نعروں ، شعلہ نوا مقرّرین کی آتش فشانیوں اور ولولہ انگیز تقریروں کے ذریعے نہ قائم ہوا ہے اور نہ ہی ا س کا کو ئی قوی امکان موجود ہے ۔ اتحاد بین المسلمین مادی اغراض و مقاصد اور معاشی منفعتوں کی بنیاد پر بھی قائم نہیں ہوسکتا ۔ یہ ایک خالص ملی اور قومی جذبہ ہے جو ہر طرح کے ظاہری مفادات کی قربانی مانگتا ہے ۔
آج عالمِ اسلام کی نازُ ک صور ت حال اور مسلمانانِ کشمیر کی حالتِ زار اس بات کی متقاضی ہے کہ تمام مسلمان اتحاد بین المسلمین کی ضرورت و اہمیت کو سمجھیں ۔ خصوصاََ وارثانِ منبر و محراب کو نہایت ذمہ دارانہ کرادر ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ فروعی ‘فقہی اور حسّاس اختلافات عوامی اجتماعات میں بیان کرنے سے گریز کریں اور عوام کی دینی اور علمی تربیت کریں ۔ اتحادبین المسلمین کی راہ میں رکاوٹ بننے والے تمام عوامل کو سمجھیں اور ان کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کریں ۔
دیکھا جائے تو اتحادبین المسلمین کی راہ میں بننے والی اہم رکاوٹوں میں جہالت و کج فہمی اور نسلی تعصب سرِ فہرست ہیں ۔مذہب کے نام پر تفرقہ پھیلانے والوں کو یہ اہم نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اتحاد و اتفاق اور اخوت و یگانگت بھی دین کے اہم اجزاء میں سے ہے ۔ اسلام نے اپنی سرمدی تعلیمات کے ذریعے ہر طرح کے تعصّبات کا خاتمہ کیا ۔ گورے اور کالے کی تفریق مٹائی ۔ صرف تقوے اور کردار کو شرف و فضل کی بنیاد بنایا ۔ ایسی واضح تعلیمات کی موجودگی میں ہم کیوں ایران اور عربی و عجمی کے تعصبات کا شکار ہوتے ہیں ۔ تاریخ کا ادنیٰ سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ ان تعصّبات نے اسلام اور مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایاہے۔ لہذا ہمیں ان تعصبات سے بالاتر ہوکر اتحاد بین المسلمین کے لیے خلوصِ دل سے کوشش کرنی چاہیے ۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک