عمران نے فرانسیسی صدر کا فون نہیں سُنا اسے بہت بڑی بہادری کی طرح پیش کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح کے بہادر آدمی کو کسی نے کہا تھا ....ارے دیکھنا کہیں مروا نہ دینا۔
آصف زرداری آجکل بہت موڈ میں ہیں۔ یہ مصرعہ انہوں نے نجانے کس حوالے سے پڑھا۔ مگر میڈیا نے اسے ”صدر“ کے ایک کارنامے کی طرح بیان کیا۔
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
یہ شعر ہمارے دوست ایک تخلیقی اور ”کبھی کبھار“ کے شاعر شعیب بن عزیز کا ہے۔ شعیب کمال کا ”غیر سیاسی“ آدمی ہے۔ اس نے وہ سارے کام کئے ہیں جو ”صدر“ زرداری نے کئے ہیں۔ انہوں نے غیر سیاسی کاموں کو سیاسی بنایا ہے کہ بچت اسی میں ہے اور شعیب کو بچنے کے طریقے بہت آتے ہیں۔ اس نے افسری کی اور خوب کی شعیب نے صرف یہ طریقہ اختیار کیا کہ یہ دائیں ہاتھ کا کھیل ہو جائے۔ انہوں نے چودھری پرویز الٰہی کا بھی ویسے ہی کام کیا جیسے شہباز شریف کا کیا تھا۔
وہ دونوں مدمقابل حکمرانوں کے لئے ایک جیسا حلیف بنا رہا ہے۔ چودھری صاحب تو ویسے ہی کھلے دل کے آدمی ہیں ان کے ساتھ ہر آدمی بڑی آسانی اور عزت بندی سے کام کر سکتا ہے۔
برادرم فاروق انصاری کالم نگار نوائے وقت میں وہ اس کا بہت حامی ۔ وہ ثابت کرتے رہتے ہیں کہ شعیب یہ بھی نہیں کر سکتا وہ بھی نہیں کر سکتا۔ جبکہ وہ سب کچھ کر لیتا ہے اور پتہ بھی چلنے نہیں دیتا۔
وہ جس محنت سے اور وفاداری سے ڈی جی پی آر رہا ہے، اس کا جواب نہیں ہے۔ مگر وہ شاعر بہت کمال کا ہے۔ اس نے زندگی میں چند ایک شعر لکھے ہیں مگر خوب لکھے ہیں۔
مرحوم و محبوب خالد احمد نے یہ شعر یوسف حسن کے لئے لکھا تھا۔ مگر یہ اصل میں شعیب بن عزیز کے لئے ہے۔
یوسف حسن جو ہے چکوال میں
وہ اک شعر کہتا ہے دو سال میں
وہ ”بڑا“ دوست ہے وہ کسی کا دشمن نہیں ہے۔ ممکن ہے کسی کو پسند نہ کرتا ہو مگر اس کا اظہار کبھی نہیں کیا اور متعلقہ آدمی کو کبھی پتہ بھی نہیں چلنے دیا۔ آجکل زرداری صاحب نے شعیب بن عزیز کے ایک مصرعے کو سیاسی طور پر غیر سیاسی بنا یا ہے۔
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
آجکل سیاسی سوالوں کے جواب کو غیر سیاسی بنا کر خود کو بچا لینا جس طرح زرداری صاحب کو آیا ہے، کسی کوکیا آئے گا۔
میری زیادہ ملاقات زرداری صاحب سے آجکل نہیں ہے۔ مگر میں انہیں پسند کرتا ہوں جبکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ آجکل مجھے پسند نہیں کرتے۔ انہیں کبھی کسی دشمن نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جو اُن کے دوستوں نے انہیں پہنچایا ہے۔
وہ ہر وقت ہنستے رہتے ہیں۔ ایک بات ثابت کرتی ہے کہ وہ بہت دکھی آدمی ہیں۔ ہر وقت ہنسنے والا آدمی اندر سے دکھوں کی وجہ سے نڈھال ہوتا ہے۔
میرے تو اس طرح وہ محسن ہیں۔ جبکہ ان احسانات کے ذمہ دار برادرم ڈاکٹر بابر اعوان ہیں۔ ستارہ¿ امتیاز میں نے صدر زرداری کے ہاتھوں وصول کیا۔ یہ تصویر آج بھی میرے کمرے میں لگی ہوئی ہے۔ میرے ہر ایسے منظر کے پس منظر میں ڈاکٹر بابر اعوان ہی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرا نام چودھری پرویز الٰہی کا ہے۔ اس کی تفصیل کبھی بیان کروں گا۔
مجھے چودھری ظہور الٰہی کی محبت بھی یاد ہے ۔ میں انہیں ملتا رہتا تھا۔ میرا جوکام چودھری پرویز الٰہی سے بھی ہوتا ہے۔ وہ انہیں یاد ہوتا ہے۔ مجھے یاد نہیں ہوتا۔ وہ بہت مہربان اور خوش قسمت آدمی ہیں۔ ان کی دوستی ہر شخص کو خوش قسمت بنا دیتی ہے۔
وہ بہت عزت کرنے والے سیاستدان ہیں۔ میرے خیال میں اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں جوان کو باعزت کر دیتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ چودھری ظہور الٰہی خود اپنی کار ڈرائیور کرتے ہوئے میرے ساتھ نیو ہوسٹل گورنمنٹ کالج لاہور آتے اور میرے ساتھ چائے بھی پیتے۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید بہت محبت والے آدمی ہیں۔ اس سے زیادہ مروت والے انسان ہیں۔ بہترین مزاح گو شاعر‘ تخلیقی اور تحقیقی کارناموں کیلئے ایک طرح سے خوش قسمت۔ ہم اورینٹل کالج میں اکٹھے تھے۔ یہاں سے نکلے تو انعام الحق جاوید بلندی کی منزلوں کی طرف گئے اور میں راستوں سے ہی پیار کرتا رہ گیا۔
بہت معروف شاعر‘سرگرم‘ تخلیقی خاتون اور بہت صاحب عزت مقام رکھنے والی خوبصورت کالم نگار اور شاعرہ عائشہ مسعود بھی انعام الحق جاوید کی بہت معترف ہیں۔ اس بار میں اسلام آباد گیا تو وہ میرے ساتھ نیشنل بک فا¶نڈیشن تک گئیں۔
علامہ راغب نعیمی کی اہلیہ محترمہ نبیرہ عندلیب نعیمی نے نازیبا خاکوں کے حوالے سے نکلنے والی ریلی سے ولولہ انگیز خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ توہین انبیاءکو روکنے کیلئے عالمی سطح پر قانون سازی کی جائے۔ تحفظ ناموس رسالت ایک عالمی نوعیت کا معاملہ ہے۔ اس زبردست ریلی میں خالدہ نورین‘ کاظمہ فیض‘ مدینہ رابعہ‘ ناظمہ نعیمہ‘ شازیہ رضا‘ زینب اور مس کنول نے خطاب کیا۔
محترمہ نبیرہ عندلیب نعیمی نے کہا کہ ہمارے لئے رسول پاک کی محبت کسی بھی جذبے سے بڑی ہے۔
مرحوم محبوب شاعرہ خالد جسے مرنے کے بعد بھی عمران منظور نے زندہ رکھا ہے۔ اس کے چھوٹے بھائی نعمان منظور اس راستے پر اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔ ایک ادبی رسالہ بیاض عمران منظور کے ساتھ مل کر خالد احمد نے شروع کیا تھا۔ آج بھی شائع ہوتا ہے اور ہماری ملاقات خالد احمد سے ہو جاتی ہے۔
نعمان منظور نے انتخاب کیا اور عمران منظور نے شائع کیا۔ بہت خوبصورت دل والے شاعر ہیں۔ اعجاز رضوی کا ایک شعر ملاحظہ کریں
جو میری آنکھ سے ٹپکا نہ برسوں
وہ آنسو پھیل کر دریا ہوا ہے
آسناتھ کنول کی ایک خوبصورت نظم بھی ”بیاض“ میں پڑھیں۔ اس کا عنوان ’جرا¿ت“ ہے۔ پہلے آسناتھ کی نذر مرحوم خالد احمد کا ایک مصرع عرض ہے۔
میرے مولا مجھے حیران رکھنا
اب آسناتھ کنول کی نظم پڑھیں تو اور زیادہ مزہ آئے گا۔ بیاض ہی میں آسناتھ کی ایک خوبصورت غزل بھی پڑھیں۔ ایک شعر دیکھیں کہ دستار تو میرے ہی سر پر ہے۔
چھوٹے چھوٹے لوگ تو خود کو جھکا کر بچ گئے
جس پہ رکھی تھی بڑی دستار وہ بھی مر گیا
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38