خان صاحب کا نیا پاکستان
اس کالم کی ابتداء نبی کریم ﷺکی ذات پر لاکھوں درود وسلام سے کرتاہوں آ ج مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ
عمران خان کے نئے پاکستان کی طرف آنے سے قبل میں اپنی ناقص سوچ کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جو کہ خان صاحب کی سوچ کے بلکل الٹ ہے میرے نزدیک کوئی نیا پاکستان نہیں بنا جب کہ ہم ہمارے قائد کے دیے ہوئے پاکستان میں ہی ہیںاور ہمیشہ اسی میں ہی رہیں گے بس ایک چیز کی کمی ہے جو کئی سالوں سے ہم محسوس کررہے ہیںوہ یہ کہ قائد کے پاکستان کو سنوارنے ،سجانے اور ترقی کی راہ پر ڈالنے کی اب ذمہ داری خان کے پاس ہے کیونکہ وہ اس چیز کا ذکر 22سال سے کرتے آرہے ہیںاور شاید اسی کی بدولت وہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں ورنہ بچہ بچہ بھی جانتا ہے کہ کپتان کے اکثر کھلاڑی چلے ہوئے کارتوس ہیںلیکن اس کے باوجود تبدیلی کی خاطر سب نے کپتان کے نام پر ووٹ دیا خان صاحب آپ کو قائد کے پاکستان میں رہ کر اپنے وعدے پورے کرنے ہیں جس طرح کی باتیں چوہدری فواد کرلیتا ہے تو اس سے زیادہ ماہرتو پچھلی حکومتوں میں پائے جاتے ہیںویسے بھی محترم فواد نے تو بچوں کو بھی شرما دیا ہے کہ ایک ہیلی کا پٹر 55روپے میں فی کلو میٹر سفر کرتا ہے شکر ہے یہ نہیںکہ دیا کہہ تبدیلی آنے کی وجہ سے پٹرول سونگھتا ہے عادتیں بدلنی ہوں گی ورنہ پروٹوکول ،تھپڑ رسید کرنا اور موٹر سائکلیں گرانا کبھی نہیں رک پائے گا میں حیران ہوکہ ابھی سے اسی طرح کے بیان اور کام ہیں آگے جاکر کیا ہونے والا ہے خیر ابھی اور ہمیں صبر کرنا ہے کیونکہ ابھی گورنمنٹ ھنی مون کے پیر یڈ پر ہے اب ا صل امتحان خان صاحب کا ہے ایک ہفتے میں حکومت کا ذائقہ تو چکھ لیا ہے اور جان بھی چکے ہیں کہ کرسی پر بیٹھنا کانٹوں کی سیج بیٹھنے کے برابر ہے لیکن یہ سب ان کے لیے ہے جن کے اندر احساس ہو اگر احساس نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں خان صاحب لاکھ مخلص ہوں لیکن ان کے ساتھ ان کی کابینہ اور بیوروکریسی کا مخلص ہونا بھی ضروری ہے بیورو کریسی سے ایک واقعہ یاد آگیاکچھ دن پہلے ایک سرکاری ہسپتال کے قریب سے گزرا تو وہاں پر ایک کمشنر وزٹ کرنے آئے ہوئے تھے نئے پاکستان میں ان کا پروٹوکول منہ چٹرا رہا تھا گاڑیوں کی ایک لمبی قطار اس کے آگے پیچھے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے وقت کا وزیراعظم ہوخان صاحب جس طرح کے دعوے کرتے ہیں وہ خود دیکھ کے شرما جاتے اس لیے سیاستدانوں سے زیادہ بیوروکریسی کو لگام دینا بھی ضروری ہے یہ وہی لوگ ہیں جو ہر فن مولا ہیں اس بات کو سمجھنا وزریراعظم کے لیے مشکل نہیں کیونکہ وہ خود پچھلی حکومتوں کی کارگردگی پر سب سے زیادہ تنقید کرنے والے ہیں اگر ہم ایک مثا ل سے اس چیز کو سمجھیں تو شاید کچھ سمجھ پائیںایک باپ اپنے گھر میں تبدیلی چاہتا ہے بیٹے با ادب ہیں ہاں میں ہاں ہر وقت ملاتے ہیںباپ نے بھی امید لگالی کہ اب تبدیلی لانے میں کوئی نہیں روک سکے گا لیکن ااصل میں ہوتا وہی ہے جو اس کے بیٹے چاہتے ہیں باپ سوچتا ہے کہ اب ڈنڈا چلانا چاہیے لیکن پھر اسے خیال آیا کہ اگر سب باغی ہوگئے تو لینے کے دینے پڑجائیںگے بس پھر کیا ہو ا تبدیلی دل میں ہی رہ جاتی ہے اس لیے وزیر اعلی پنجاب کا شاہی پروٹوکول اور جہاز پر فیملی سمیت آنا جانا کبھی بھی دوسری حکومتوں سے بازی نہیں لے سکتا یوں روایتی سیاست کودفن کرنے کے دعوے دار تو بہت ہیں لیکن عملی طور پر سب کو بیوقوف بنا یا جارہا ہے اس لیے خان کو اس چیز کے بارے میں سوچنے کے ساتھ ساتھ شاطرانہ طریقے استعمال کرنے ہیںورنہ عرصہ دراز سے سیاست کرنے والوں کا چکما دینا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور یوں 22سال کی محنت پل بھر میں ضائع ہو سکتی ہے کیونکہ پہلے سب لوگ جانتے تھے کہ خان کے پاس اختیارات نہیں لیکن اب سب جانتے ہیںکہ خان صاحب کو خدا کا دیا سب کچھ ہے جس کی بدولت وہ ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیںورنہ کپتان کبھی اپنے منہ سے یہ نہیں کہہ سکیں گے یہ خان صاحب کا دیا ہوا نیا پاکستان ہے ۔