گائے فوبیا
دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے‘ ہندوؤں کا گائے فوبیا کم ہونے میں نہیں ہونے والا۔ اب ایک ہندو پنڈت نے بھارت میں آنے والے سیلابوں کو بھی گائے کے ذبیحہ کے ساتھ منسلک کر دیا ہے۔ اس پنڈت کا کہنا ہے کہ جب گائے کا گوشت کھایا جائے گا تو دیوتا ناراض ہو جائیں گے اور ردعمل میں سیلاب کی صورت میں نقصان ہو گا۔ اب بہت جلد بھارت میں ہونے والے ہر نقصان کی ذمہ داری گائے کے ذبیحہ پر ڈالے جانے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔ علیحدگی پسند تحریکوں میں مرنے والے بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کا الزام بھی گائے کے ذبیحہ پر ڈالا جائے گا۔
مستقبل میں پاک بھارت کرکٹ میچوں میں بھارت کی شکست کو بھی گائے کا گوشت کھانے کا نتیجہ قرار دیا جائے گا ۔ چین کے ساتھ شکست آمیز بلکہ ذلت آمیز تعلقات کو بھی اسی کھاتے میں ڈالا جائے گا۔ بھارت کی بھوک‘ افلاس‘ غربت‘ جاہلیت اور معیشت کی زبوں حالی بھی گائے کے ذبیحہ کے کھاتے ڈالی جائے گی۔ کٹر ہند و کسی بھی قسم کا گوشت کھانے کو گناہ تصور کرتے ہیں۔ مچھلی اور دوسری سمندری غذائیں اس لئے نہیں کھائی جاتیں کیونکہ ان کو کھانے سے ہندوؤں کے بقول سمندر کا دیوتا ناراض ہو جاتا ہے۔ اور ظاہری بات ہے۔ وہ اپنی ناراضگی کو سمندری طوفان اور سونامی کی صورت میں ظاہر کرے گا۔
ویسے تو ہندو سمندر میں داخل ہونا بھی اپنے مذہبی عقیدے کے خلاف سمجھتے ہیں لیکن اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ان کی بحری فوج سمندروں پر کیسے تیرتی پھرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نیوی میں بھرتی کیلئے سکھوں کو ترجیح دی جاتی ہو یا پھر سمندر کے دیوتا سے انہوں نے کوئی خصوصی اجازت نامہ لیا ہو۔ اس بارے میں مجھے علم تو نہیں تاہم قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ان کا کوئی نہ کوئی ہوا کا دیوتا بھی ہوتا ہو گا جو انہیں ہوا میں پرندوں کی طرح اڑنے سے منع کرتا ہو گا لیکن یہ پھر بھی ہوا کے دوش پر اڑانیں بھرتے پھرتے ہیں۔
دیوتاؤں کے ذکر سے نائجیرین ادیب جوزف کونرڈ کا ناول ’’تھنگز فال اپارٹ‘‘ ذہن میں آرہا ہے۔ یہ ناول نائیجریا میں برطانوی سامراج کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ نائیجیرین لوگ اپنی قدیم رسومات اور عقائد کے مطابق زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ ان کے رواج میں شامل ہے کہ سب سے طاقتور شخص ان کے نو گاؤں پر مشتمل یونین کا سربراہ ہوتا ہے۔ کچالوؤں کی فصل اگانا ان کی تہذیب کا حصہ ہے جس کے پاس جتنے زیادہ کچالو ہوتے ہیں وہ اتنا ہی زیادہ مالدار مانا جاتا ہے۔ ان میں سے اگر کوئی خودکشی کر لے یا پھر کوڑھ کے مرض میں مبتلا ہو جائے تو اسے دفنایا نہیں جاتا بلکہ جنگل کے ممنوعہ علاقے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اگر کسی کے گھر جڑواں بچے پیدا ہو جائیں تو انہیں بھی اجھاڑ جنگل میں پھینک دیا جاتا ہے جو وہاں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔ مرد اپنی بیویوں اور بچوں کی تعداد سے پہچانا جاتا ہے۔ ہر معاملے میں دیوتاؤں کے مقرر کردہ کاہنوں سے مشورہ لیا جاتا ہے۔
اتنے میں انگریز لوگ عیسائی مشنریوں کے روپ میں نائیجریا آتے ہیں۔ ان سے متاثر ہو کر لوگ عیسائیت قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جب عیسائی چرچ کے لئے جگہ مانگتے ہیں تو انہیں جنگل کا ممنوعہ علاقہ دے دیا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ اس ممنوعہ علاقے میں موجود بد روحیں ان کا خاتمہ کر دیں گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ آخر مقامی آبادی کو انگریزوں کا تسلط قبول کرنا پڑتا ہے۔ بالکل اسی طرح ہندوؤں کو بھی کسی حد تک پتہ چل گیا ہوگا کہ ان کے دیوتا محض نمائشی ہی ہیں‘ اس لئے انہیں نمائش کی حد تک ہی رکھنا چاہئے۔ جو ہندو نوجوان بیرون ممالک جاتے ہیں وہ لازماً گائے کا گوشت کھا چکے ہوں گے اور انہیں یہ لذیذ بھی بہت لگا ہو گا۔ اور عین ممکن ہے کہ چوری چھپے بہت سے ہندو خود بھارت میں بھی گائے کا گوشت کھاتے ہوں گے۔ گائے کا گوشت کھانے پر پابندی صرف بھارت میں ہی ہے۔ دنیا کے باقی تمام مسلم و غیر مسلم ممالک میں روزانہ لاکھوں کی تعداد میں گائیں کٹتی ہیں۔ اگر ہندو پنڈٹ گائے کے ذبیحے کو بارش‘ طوفان اور سیلاب کی آمد کی وجہ قرار دیتے رہیں گے تو پھر ان کو ذہن میں رکھنا ہو گا کہ یہ بارشیں‘ طوفان اور سیلاب اب کبھی نہیں رکیں گے کیونکہ دنیا میں ہر جگہ ہر لمحہ کوئی نہ کوئی گائے کٹ رہی ہوتی ہے۔