اب کے خوابوں کا رنگ کیا ہوگا

گزشتہ ماہ25جولائی کو ہونے والی وزیراعظم کی تقریر اْن تقاریر کی ایک کڑی ہے جو پچھلے ستر سالہ دور میں مختلف وزرائے اعظم نے اپنی سیٹ سنبھالنے کے بعد کی ہے۔22واں وزیراعظم یعنی22ویں تقریر۔ اور 22 تقاریر کا مطلب عوام کو دکھایا جانے والا22واں خواب۔ملک کی 71سالہ تاریخ ایسے بے شمار خوابوں سے بھری پڑی ہے جنہیں عوام کی آنکھوں میں بھر دیا گیا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ معصوم عوام ہر بار ایسے خوابوں کا بھروسہ کرکے زندگے کے سہانے دن آرام و سکون سے گزارنے کی خواہش میں ایک نئے نمائندے کا انتخاب کرتی ہے اور پھر اکثر ان کے خواب بعد از الیکشن چکنا چور بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اس کڑی کی ایک اور ابتدا ہوچکی ہے۔ جوش وخروش، ولولے اور امیدوں وعدوں کا دریا اپنے جوبن پر ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے قوم سے پہلے خطاب میں عمران خان نے جو کچھ عوام سے کہا عوام نے آمنا وصدقنا اس پر مکمل یقین کرلیا ہے۔ معصوم عوام اگرچہ ان دکھائے جانے والے خوابوں کی بھاری قیمت بھی چکاتی ہے۔ لیکن نیا پاکستان اور نئے پاکستان کے نئے قوانین یقیناًانہیں اس دور میں پہنچا دیتے ہیں جہاں ان کا اپنا گھر ہوگا، نوکری ہوگی، سفر کی آرائشیں ہوں گی مگر سڑکوں اور گلیوں نیز دماغوں میں آلائشیں نہیں ہوں گی۔ صاف ستھرے ماحول میں زندگی ایک جنت کا نمونہ پیش کرے گی۔ ان کی آئندہ نسلیں بلا امتیاز اچھی تعلیم مفت حاصل کرسکیں گے۔50لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کا خواب واقعی دلآویز ہے۔ مہنگائی کی ماری سسکتی اور نا امید عوام کو رشنیاں جگمگاتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اگرچہ سچ اور جھوٹ کے امتزاجی دلاسے ہر دور میں تھے۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں عوامی امنگیں بھی ان کے ساتھ ساتھ ہی کروٹ بھی لیتی رہتی ہیں۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ ابھی تک نمائندوں نے واقعی حکومتیں تو کی ہیں مگر عوام کی اصل قیادت سے محروم رہی ہیں۔ مگر اب دال دلیا اور چل چلاؤ سے کام چلانے والا وقت گزرچکا ہے۔ عوام اب عملی شکل میں ان خوابوں کی تعبیریں چاہتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کے بدلتے چہروں سے اتنی غرض نہیں ہے ان کو اپنے بدلنے والے مالی حالات کا شدت سے انتظار ہے۔ ایک ٹیکس فری معاشرے کا انتظار ہے جہاں وہ اپنی سخت محنت سے کمائی اپنی ضروریات کیلئے بآسانی خرچ کرسکیں۔ عمران خان عمر کی ساتویں دہائی کے آخری حصے میں ہیں۔ نہ نوجوان رہے ہیں نہ کھلاڑی، نہ اب ابالی پن ہونا چاہئے نہ خوابوں میں رہنے والی ٹین ایج۔ اب وہ عمر کے اس حصے میں جہاں انسان شعور وآگہی کی تمام منازل طے کرچکا ہوتا ہے۔ بات میں وزن ہوتا ہے، زندگی خوابوں سے نہیں حقیقت سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔ ہماری نسلیں بے چینی سے کئے گئے وعدوں کا پوراہونے کا انتظار کر رہی ہے۔ مگر جتنے وعدے کردئیے گئے ہیں کیا ان پر عمل درآمد اتنا آسان بھی ہوگا۔ لیکن میری دعا ہے کہ یہ آسان ہوجائے۔ اْمید کی جو شمع جلا دی گئی ہے۔ وقت کے ظالم تھپیڑے اسے بہت جلد گل تو نہ کردیں گے۔ مگر میری دعا ہے کہ یہ شمع ہمیشہ جلتی رہے اور اپنے اْجالے بکھیرتی رہے۔ حالات ایسے نہیں کہ کچھ بھی ایسا آسانی سے کہہ دیا جائے جس پر عمل درآمد کرنے میں ہرگز کوئی آسانی نہ ہو۔ جو بات بھی کی جائے نہایت دانشمندی سے سوچ سمجھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ جو خواب ہیں ان کی تعبیریں لے کر آنے کی ضرورت ہے۔ دانش مندی اور بردباری اب وقت کا تقاضا ہے۔ ٹین ایج والے جذباتی جملے اب کام نہیں دے سکتے۔ سادگی کے جس دور کا آغاز کیا گیا۔ اس پر نہ صرف ہمیں بلکہ حکمرانوں کو بھی سختی سے عمل پیرا ہونا ہوگا۔ سب کو آغاز اپنی اپنی ذات سے کرنا ہوگا۔ تبدیلی کا عمل بھی درحقیقت اپنی ذات سے آغاز کے ساتھ ہی آغاز ہوتا ہے۔ آپ خود کو تبدیل کئے بغیر معاشرہ تبدیل کرنے کی بابت کیسے سوچ سکتے ہیں۔ من حیث القوم ایک اور بات بھی ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ہم سارے کا سارا انحصار ہمیشہ دوسرے پر ہی کیوں کرلیتے ہیں اپنی ساری توقعات دوسروں سے وابستہ کرکے خود چین کی نیند کیوں سونا چاہتے ہیں۔ تبدیلی کے اس عمل میں کیا ہم خود اس کا حصہ نہیں ہیں۔ کیا ہمیں خود کو بھی بدلنے کی اشد ضرورت نہیں ہے۔ ورنہ موجودہ وزیراعظم ہو یا کوئی اور حکمران کیلئے22کروڑ کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ تعلیم ، صحت، صفائی، کرپشن کے خاتمے کے بھی وزیراعظم نے وعدے کئے ہیں۔ عدالتی نظام کی درستی کی بات کی ہے۔ غریبوں اور بیواؤں کی خصوصی مدد کا عندیہ دیا ہے۔ یہ ہماری بنیادی ضروریات بھی ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لئے ہم نے ہمیشہ اپنے حکمرانوں پر بھروسہ بھی کیا ہے۔ نئے وزیراعظم سے التماس ہے کہ اس بھروسے کو ٹوٹنے سے ضرور بچا لیں۔ کاش ریاست مدینہ والا عدل وانصاف رائج بھی ہوسکے۔70سال پر پھیلی ہوئی انتہائی تکلیف دہ تاریخ نے ثابت کردیا ہے کہ ہر حکومت اور برسراقتدار آنے والی ہر سیاسی اور مذہبی جماعت ملکی مسائل کو حل کرنے اور ہمارے دکھوں کا مداوا ڈھونڈنے میں ناکام رہی ہے۔ سیاست دانوں کی بڑی اکثریت نے ملکی مفاد پر اپنے سیاسی مفاد کو ہمیشہ ترجیح دی ہے۔ حکمرانوں کی تعداد پانچ ہزار سے بھی کچھ کم ہے وہ چاہیں بھی تو 22کروڑ عوام کے مسائل کو اس وقت تک حل نہیں کرسکتے جب تک عوام بھی اپنی مدد آپ کے تحت آگے نہیں آئیں گے۔ کیا ہم ہمیشہ یونہی مفلوج ہوکر بیٹھے رہیں تمام دیہات تمام تحصیلیں تمام اضلاع اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل پیرا ہوکر اپنے مسائل کو حل کرلیں تو ملکی حالات بہتر ہوسکتا ہے۔
اگر محض انتخابات اور حکمرانوں کی تبدیلی سے مسائل حل ہوسکتے ہوتے تو کب کے ہوچکے ہوتے۔ عالمی سطح پر لیکن مسائل کے جن منہ کھولے کھڑے ہیں بجلی و پانی کا مسئلہ حل کرنا ہمارے اختیار میں نہیں یہ حکومت وقت کا کام ہے۔ لیکن جتنے یقین و ایمان کے ساتھ ہر مسئلے کو جلد حل کرنے کا جس طرح سے عندیہ دیا گیا ہے۔امید واثق ہے کہ یقیناًتمام وعدے اس بار ضرور پورے ہوں گے۔ آپ سب پر اْمید ہیں اور آپ سب کے ساتھ یقیناًمیں بھی اتنی ہی پراْمید ہوں۔