سول ملٹری تعلقات
وزیراعظم عمران خان نے جمعرات کو وفاقی وزراءبرائے دفاع، خارجہ امور، خزانہ، اطلاعات، وزیر مملکت داخلہ اور سیکرٹری دفاع کے ہمراہ جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کا دورہ کیا۔ پاک فوج کے شعبہ¿ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق جی ایچ کیو آمد پر وزیراعظم کو پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے گارڈ آف آنر پیش کیا۔ وزیراعظم نے شہداءکو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے یادگارِ شہداءپر پھولوں کی چادر چڑھائی۔ وزیراعظم کا تعارف جی ایچ کیو کے تمام پی ایس اوزسے کرایا گیا۔ بعد ازاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم اور ان کے ساتھ آنے والے وزراءکو سلامتی کی صورت حال، خطرات اور ردِعمل کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔ دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی مہم، جاری آپریشن ردالفساد، کراچی کی صورت حال اور خوش حال بلوچستان پروگرام کے بارے میں تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے پاک فوج کی پیشہ وارانہ مہارت، آپریشنل تیاریوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خدمات اور قربانیوں کو زبردست الفاظ میں سراہا۔انہوں نے کہا کہ ترقی پاکستان کا مقدر ہے اور انشاءاللہ ہم مثبت انداز میں آگے بڑھتے ہوئے اقوام عالم میں اپنا مقام بلند کریں گے۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دور ے اور فوج پر اعتماد کے اظہار پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے یقین دلایا کہ انشاءاللہ پاک فوج ہر قیمت پر مادر وطن کے دفاع کے لئے قوم کی توقعات پر پورا اترے گی۔
وزیراعظم عمران خان جو در حقیقت کرکٹ کے کھلاڑی ہیں انہیں نہ صرف قوم نے منتخب کیا بلکہ وہ خود بھی ایک منجھے ہوئے تجربہ کار سیاست دان کی مانند ایوان اقتدار میں پیش رفت کررہے ہیں، یاد رہے کہ عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنی فعالیت کا آغاز وزارت خارجہ کے دورے سے کیا تھا اور یہ انتہائی عاقلانہ فیصلہ تھا کیونکہ اقتدار میں آنے والی قیادت کو عالمی حالات سے آگہی کی اشد ضرورت ہوتی ہے جبکہ دوسرا دورہ انہوں نے جی ایچ کیو کا کیا اور یہ بھی وقت کے مطابق انتہائی اہمیت کا حامل ہے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس دورے کے دوران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جو بریفنگ دی اس کا دورانیہ آٹھ گھنٹے پر مشتمل ہے، واضح رہے کہ اس ملاقات میں وطن عزیز کی اہم ترین شخصیات شامل تھیں یعنی وزیراعظم، وزیردفاع، وزیر خارجہ، وزیرمملکت داخلہ و سیکرٹری دفاع اور وطن عزیز کی مسلح افواج کے چیف، یعنی ملک کی اہم ترین شخصیات آٹھ گھنٹے ایک جگہ بیٹھی رہیں تو کچھ تو خاص بات تھی ورنہ اتنی اہم شخصیات ایک جگہ بیٹھ کر ہنسی مذاق تو نہیں کرسکتیں، اور یہ بہت بہتر ہوا کہ آرمی چیف نے وزیراعظم اور ملک کے دیگر اہم وزراءکو ملکی حالات سے متعلق اہم معلومات بہم پہنچادیں، کیونکہ گذشتہ عرصے سے وطن عزیز میں آنے والے غیر ملکی اہم مہمان سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ عسکری قیادت سے بھی ملاقات کرتے تھے اور سابقہ ادوار میں سیاسی و عسکری قیادت میں ہم آہنگی نہیں تھی لہذا ملنے والے غیر ملکی مہمانوں کے ساتھ سیاسی قیادت کچھ بات کرتی تھی جبکہ عسکری قیادت کچھ اور اس سے عالمی سطح پر ایک تماشا بن جاتا تھا جبکہ ہماری کمزوری کا بھی اظہار ہوتا تھا اور عالمی سطح پر ہمارے مو¿قف پر بھی زد پڑتی تھی، اب آٹھ گھنٹے میں عسکری قیادت نے سیاسی قیادت کو بھرپور بریفنگ دے دی ہے اب غیرملکی مہمان سیاسی و عسکری قیادت سے جیسے دل چاہے ملیں انہیں دونوں جانب سے ایک ہی بیان سننے کو ملے گا، ایک سا لہجہ ہوگا اور ایک سے جذبات ہوں گے اس سے ایک جانب ہمارے مو¿قف کو تقویت حاصل ہوگی تو ساتھ ہی سیاسی و عسکری اتحاد و یک جہتی عالمی سطح پر ہماری قوت کے اظہار کا ذریعہ ہوگی۔
علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان جن ساتھیوں کو ہمراہ لے کر گئے ان کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے مثلاً وزیرخزانہ اسد عمر کے حوالے سے بات کی جائے تو بظاہر عام سا سوال بنتا ہے کہ آرمی چیف کے ساتھ ملاقات میں وزیرخزانہ کا کیا کام ہے لیکن اگر حکمت کی نظر سے دیکھا جائے تو وزیرخزانہ کی اپنی جگہ بہت اہمیت ہے خاص طور پر موجودہ ماحول میں جب وطن عزیز غیر ملکی قرضوں میں ناک تک ڈوبا ہوا ہے اور ایسی کوئی صورت نظر نہیں آرہی کہ قرضوں کا سُود ادا کردیا جائے اور ملکی امور کو چلالیا جائے ، ایسے میں آرمی چیف کی رائے بنیادی اہمیت کی حامل ہوگی کیونکہ آرمی چیف جانتے ہیں کہ کس کس ملک سے ملکی سرحدوں کا خطرات ہیں، کس سے معاشی خطرات ہیں کون سا ملک ہے جو ہمیں قرض کا سبز باغ دکھا کر ہماری آزادی سلب کرنا چاہتا ہے، کس کس ملک کی خفیہ ایجنسیاں ہمارے خلاف کیسی کیسی سازشوں کے جال بُن رہی ہیں، ان حالات سے آگہی کے بعد ہم درست فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کس ملک سے قرض یا امداد لیں اور کس ملک کی بظاہر بہتر نظر آنے والی امداد کو رد کردیں، نیز جیسے ملک میں سی پیک کی تعمیر جاری ہے اس میں چینی انجینئر اور دیگر کارکن آرہے ہیں اور چند دہشت گرد ان پر حملے کرسکتے ہیں ایسے میں ان کی حفاظت کے لئے وہاں فوج متعین کی جائے گی یا نہیں، فوج متعین کریں گے تو اس کے لئے اخراجات کرنے ہوں گے، اس بارے میں بھی فوجی قیادت ہی بتائے گی کہ کتنے اخراجات ہوں گے اس کے علاوہ دفاعی آلات کی خریداری کے معاملات ہیں یہ تمام امور فوجی قیادت ہی طے کرتی ہے کہ کون کون سا اسلحہ کتنی مقدار میں چاہئے، اس قسم کی بریفنگ پہلی بار نہیں دی گئی آرمی چیف تو سابقہ حکومت کو بھی اس نوعیت کی بریفنگ دیا کرتے تھے لیکن اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیرخزانہ اسحق ڈار ناراض ہوا کرتے تھے کہ آرمی چیف کا کیا کام کہ وہ وزیراعظم اور وزیرخزانہ کو بریفنگ دے ان کی یہی انا اور تکبر ملک کو تشویش ناک صورت حال میں لے گیا کہ اب یہی سمجھ نہیں آرہی کہ قرض کا سود کہاں سے دیں اور قسط کہاں سے، نیز ملکی امور چلانے کے لئے رقم کہاں سے لائیں۔
وزیراعظم عمران خان کا فوجی افسروں سے خطاب کے دوران پاک فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت، آپریشنل تیاریوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو سراہتے ہوئے یہ کہنا کہ قوم کی حمایت اور یک جا قومی سوچ کے ذریعے ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوں گے، حکومت پاک فوج کی صلاحیت اور استعداد کار کو برقرار رکھنے کے لئے درکار تمام تر وسائل فراہم کرے گی نہ صرف حوصلہ افزا بلکہ سیاسی و عسکری تعلقات کی مضبوطی کے لئے بھی اہم ہیں۔ اس نوعیت کی ملاقاتوں اور توصیفی الفاظ انتہائی گہرا اثر رکھتے ہیں نیز یہ صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ عمران خان فوجی قوت سے آگاہ ہیں اور جانتے ہیں کہ عالمی سطح پر اپنا وقار بلند رکھنے کے لئے عسکری قوت ضروری ہے اور فی زمانہ عسکری قوت عددی برتری پر نہیں بلکہ ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ کی مرہون منت ہے۔ بہرحال قوم کو امید ہے کہ نئے وزیراعظم عمران خان جن پر فی الحال اختلافی قوتیں بلا وجہ کے الزامات عائد کرکے نان ایشو کو ایشو بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں مقصد یہ ہے کہ عمران خان کو ایسے نان ایشوز میں الجھادیا جائے کہ وہ اپنے اصل اہداف کی جانب متوجہ ہی نہ ہوسکیں اس طرح عوام ان سے بدظن ہوجائیں اب یہ عمران خان کا امتحان ہے کہ وہ اپوزیشن کی اس سازش کو سمجھتے ہوئے نان ایشوز میں الجھنے کے بجائے اصل مسائل کی جانب متوجہ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی جماعت کو ایسے افراد سے پاک کریں جو ان کے لئے بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔
علاوہ ازیں آئندہ ہفتہ اس لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ امریکہ کا اعلیٰ سطحی وفد پاکستان کے دورے پر آرہا ہے جس میں امریکہ کی مسلح افواج کے سربراہ اور وزیرخارجہ خارجہ شامل ہوں گے، ماضی میں جب بھی امریکہ سے کوئی اعلیٰ سطحی وفد پاکستان آتا تھا تو وہ پرانے مطالبات، یعنی پاکستان اپنی حدود میں فعال دہشت گردوں اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف مو¿ثر کارروائی کرے، کے ساتھ چند نئے مطالبات کی فہرست بھی لے آتا تھا حالانکہ پاکستان نے متعدد بار امریکہ کو سمجھایا کہ جب سے پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب اور اس کے بعد آپریشن ردالفساد شروع کیا ہے اس کے بعد پاکستان کی حدود میں دہشت گردوں کا کوئی نیٹ ورک نہیں رہا تمام دہشت گرد فرار ہوکر افغانستان چلے گئے ہیں اور وہاں کُنڑ اورننگرہار کے علاقوں میں پناہ گزین ہیں، ہم اس ضمن میں پہلے بھی متعدد بار تحریر کرچکے ہیں لیکن امریکی حکام نے کان نہیں دھرے آخر کار ٹی ٹی پی کا سربراہ کنڑ کے علاقے میں ہی جہنم واصل کیا گیا اب باقی دہشت گرد بھی کنڑ یا ننگرہار سے ہی ملیں گے لیکن امریکی حکام اس جانب توجہ نہیں دیتے ویسے بھی یہ بات قابل غور ہے کہ مفرور دہشت گرد افغانستان کی سرحد کیسے عبور کرگئے جبکہ وہاں پر امریکی فوجیں موجود ہیں، کیا دہشت گردوں نے سلیمانی ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں یا امریکی فوجیوں نے جان بوجھ کر ان کی جانب سے آنکھیں بند رکھیں، امریکی قیادت کو پاکستان پر کسی قسم کی الزام تراشی سے پہلے اپنی فوجوں سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ دہشت گرد پاک افغان سرحد عبور کرکنڑ اور ننگر ہار کیسے پہنچے، بہرحال یہ وفد 5 ستمبر کو پاکستان پہنچ رہا ہے ظاہر ہے کہ اپنی سابقہ روایات کو قائم رکھتے ہوئے اس وفد کے ارکان سیاسی و عسکری دونوں قائدین سے ملیں گے، اس لحاظ سے یہ بہتر ہوا کہ آرمی چیف نے بھرپور بریفنگ کردی اب امریکی وفد کو سیاسی و عسکری دونوں قائدین سے ایک سا جواب ملے گا جو پاکستان کے وقار و آبرو میں اضافے کے ساتھ قوت کی علامت ہوگا۔