
سرکاری آفیسر ز حکومتی معاملات کو بہتر طور پر چلانے کے لیے تعینات کےے جاتے ہیں۔اعلی عہدوں تک پہنچنے والے افسر وں کی صلاحےت اور پےشہ وارانہ مہارت پہ شک نہیں کیا جاسکتا۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر اعلی عہدوں پر فرائض انجام دینے والے بہت سے آفیسرایک مخصوص دائرے میں رہتے ہوئے اپنی نوکری کے دن پورے کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی کوئی بندہ خوشبو کے تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح سامنے آتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف اپنے محکمہ کے جوانوں میں عزت بنالےتا ہے بلکہ اپنے اچھے روےے سے عوام کے لیے آسانیاں پےدا کرنے کا بھی سبب بنا جایا کرتا ہے۔
پنجاب دھرتی نے ہر دور میں ایسے بہادر سپوتوں کو جنم دیا ہے کہ جو اپنی قابلےت، محنت،تدبیر حوصلے اورفولادی ارادوں سے ہر مشکل گھڑی کا مقابلہ کرتے رہے ہیں۔ پولیس سروس میں بہت سے آفیسرز ایسے ہیں جو اپنے کام،لگن، اہلیت،ایمانداری سے اپنا منفرد مقام رکتھے ہیں،جنہوں نے کسی خوف،سفارش کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایسے ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دئیے کہ لوگوں نے ان پر اپنی محبتوں کے پھول نچاور کئی،ایسا ہی ایک معتبر نام آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کاہے۔ڈاکٹر عثمان انور نے بہت مختصر وقت میں پنجاب پولیس کے آفیسرز اور جوانوں کے لیے ایسے کام کےے ہیں کہ محکمہ کے لوگ ان سے بہت خوش ہیں۔یہ ان کی اپنے محکمے سے محبت ہے کہ پنجاب کی تارےخ میں پہلی بار پولیس کی جوانوں کو زخمی ہونے پر غازی اور فرض کی بجاآوری میں جان قربان کرنے پر شہےد کے نام سے لکھا اور یاد کیا جارہا ہے۔اب سنا ہے آئی جی صاحب ”فرینڈز آف پولیس مہم“ کے زرےعے عوام اور پولیس کے درمیا ن اعتماد کی فضا قائم کرنے کا ارادہ بنا چکے ہیں۔یہ کام جتنا ضروری ہے اتنا ہی مشکل ہے۔عوام پولیس کو دوست سمجھیں یا پولیس کا رویہ عوام سے دوستانہ ہوجائے یہ ناممکن نہیں تو بہت مشکل کام ضرور ہے۔یہ عمل کہہ دینے سے نہیں ہوگا۔اس کے لیے جناب عثمان انور کو کچھ اہم نقاط پر غور کرنا ہوگا۔یا یوں کہےے کہ عوام کے دلوں میں پولیس سے محبت اور پولیس کے جوانوں کے دلوں میں عوام سے نرم سلوک کی ترغیب دینے کے لیے منصوبہ بندی سے کام کرنا ہوگا۔جب سے لکھنا شروع کیا ہے ایک ذمہ داری سمجھ کے پولیس اور فوج کے بارے سال میں کئی بار لکھ تحریریں لکھتا رہتا ہوں۔ایک سپاہی سے لے آئی جی پنجاب کے پاس گفتگو کرنے کا جب موقع ملا چلا جاتا ہوں۔میرا خیال ہے کہ اس محکمے میں بہت سے اچھے لوگ ہیں ،جو نیک نےتی سے عوام کی جان و مال کے تحفظ کا فرےضہ ادا کررہے ہیں لیکن کسی ایک پولیس والے کی کوتاہی یا کسی ایک پولیس والے کے غلط کام سے سارے پنجاب کی پولیس فورس کے بارے لوگ طرح طرح کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔عام حالات میں پولیس پہ ہمیں بھی بہت سے اعتراض ہیں۔
پولیس کی گاڑیوں پر اکثر لکھا پڑھتے ہیں کہ ’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘ اور کسی گاڑی پر لکھا ہوتا ہے نفرت مجرم سے نہیں جرم سے ہے۔لیکن پھر بھی ایک عام پاکستانی پولیس کی گاڑی کے قرےب سے گزرتے ہوئے ڈرا ڈرا رہتاہے۔کئی بار ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیس گاڑی میں بیٹھے جوان کسی بھی وجہ سے لوگوں کو روک لیتے ہیں۔دھمکاتے ہیں،ڈراتے ہیں اور کئیوں کو گاڑی میں بٹھا لیتے ہیں اور مٹھی گرم ہونے پر آزاد کردیتے ہیں۔
آج سے بہت سال پہلے ایک پولیس افسر نے کہا تھا‘ راجہ صاحب!جب کبھی دیر سویر سڑک پہ کھڑے پولیس کے جوانوں سے آپ کا سامنا ہو تو ان سے بحث کرنے،اپنے تعلقات گنوانے یامیڈیا کارڈ دکھانے کی بجائے نرم لفظوں میں گفتگو کرکے نکلنے کی کوشش کرنے کی کوشش کیجئے گا۔صاحب کا کہنا تھا کہ ڈیوٹی پر کھڑے جوان اکثر چڑ چڑے ہو جاتے ہیں اور ایسے میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
جناب عالی قدر! میری نظروں کے سامنے کچھ خبریں ہیں کہ مختلف شہروں میں ڈی پی اوز طلبا و طالبات کو پولیس تھانوں اور دفاتر کی سیر کروارہے ہیں۔بلا شبہ یہ ایک اچھی کوشش ہے لیکن جناب عالی پولیس اور عوام کے درمیا ن موجوددوریوں کو مستقل بنیادوں پرختم کرنے کے لیے ایسے لوگوں کو ساتھ ملا کے ایک تھنک ٹینک بنانے کی کوشش کریں جو اپنے ذاتی مفادات کی بجائے قوم کی فلاح کے لیے مصروف عمل ہوں۔ےعنی اگر آپ چاہتے ہیں کہ عوام پولیس کو اپنا ہمدرد ،خیر خواہ اور دوست سمجھے تو پولیس فورس کے آفیسرز کو پابند کےجےے کہ کم از کم مہینے میں ایک بار شہر کے شاعروں،ادےبوں،لکھاریوں اور سماج سیوکوںکے ساتھ مکالمہ کریں۔اس کے بعدپولیس جب کسی مجرم یا ملزم کو گرفتار کرنے جائے تو اس امر کو ےقینی بنوائےے کہ اس وقت پولیس کے جوان نہ صرف مجرم کے گھر والوں سے مناسب رویہ اختیار کریں بلکہ ماوں ،بہنوں اور اولاد کے سامنے مجرم کو’پھینٹی‘ لگانے اوربرا بھلا کہنے سے بھی گرےز کریں۔جس نے جرم کیا ہو اسے ضرور قانون کے کٹہرے میں لایا جائے لیکن کسی ایک انسان کے غلط کام یا جرم کی سزا اس کے بوڑھے والدین اور بیوی بچوں سے غلط برتاوکا جواز نہیں ہونا چاہئے۔تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرتی حالات میں٬نئی ٹیکنالوجی٬سائنسی ایجادات اور سیکورٹی خدشات کے پس منظر میں قوم فطری طور پر ایک ایسی پولیس کی توقع کرتی ہے۔جوعوام دوست ہو،جو ہمدرد ہو،جو جرم سے نبٹنے کے لیے تیار ہو۔ سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ کسی بھی مشکل میں عام شہریوں کا واسطہ تھانہ میں موجود محرر اور تفتےشی ای ایس آئی سے پڑھتا ہے۔اگر یہ دو بندے ٹھیک ہوجائیں تو عوام اور پولیس کے درمیان اعتماد کا رشتہ دنوں میں بہتر ہوتا چلا جائے گا۔اسی لیے بہت ضروری ہے کہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انوراپنے تفتےشی تھانےداروں پر نظر رکھنے کے لیے کوئی موثر لائحہ عمل بنائیں۔