
ظالمو! قاضی آرا ہے کا نعرہ کس نے لگایا سب جانتے ہیں؟ اگرچہ یہ نعرہ لگا کر بھی جماعت اسلامی کی سولو فلائیٹ کامیاب نہ ہوسکی تاہم اس نے نعرہ زدہ ملک میں درمیانے درجے کا زلزلہ ضرورپیدا کردیا تھا، موجودہ حالات میں قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے کے بعداس نعرے کی بازگشت سنی جارہی ہے ظالمو! قاضی آگیا ہے۔ عوام امید کررہے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان اعلیٰ عدلیہ کے ماتھے پر لگے داغ مٹا دیں گے، عوام خوب جانتے ہیں یہ وہ قاضی صاحب ہیں جنھوں نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ سچ کا پرچم بلند کیا، رب کی رضا سے وہ اس عزت کے حقدار ٹھہرے جس کو چھیننے کیلئے انکے خلاف خوفناک سازشیں کیں، جیسے ہی انھوں نے عہدہ سنبھالا تو جس فل کورٹ کیلئے 16 ماہ تک جج دستیاب نہ تھے‘ وہ پہلے دن ہی آن موجود ہوئے، جیسے ہی عدالتی کارروائی لائیو نشر کرنے کا اعلان ہوا تو مجھ سمیت لاکھوں افراد جو کبھی سپریم کورٹ نہیں گئے سب نے فل کورٹ عدالتی کارروائی لائیو دیکھی اور خوب تالیاں بجائیں، جس پر عوام نے کہا یہ ہے اصل اور پہلی تبدیلی، عوام نے پہلی بار ایسا قاضی دیکھا جس نے محض چند گھنٹوں کی براہ راست نشریات کے ذریعے عدالتی سسٹم میں پاکستانی گوربا چوفوں کی جانب سے فٹ کئے گئے نالائق نگینوں کی اوقات سب کے سامنے آشکار کردی، انھوں نے حاضر اور غیرحاضر تمام بوگس قانون دانوں کے چہرے پوری دنیا کو دکھا دیئے، قوم قاضی صاحب کا دلی شکریہ ادا کررہی ہے کہ انھوں نے تمام پاٹے خانوں کی اصلیت دکھا دی۔ میں تو یہ سن کر ہی ہکا بکا رہ گیا جب کہا گیا کہ اس فل کورٹ کے حتمی فیصلے کے خلاف اپیل کہاں سنی جائیگی؟ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف سماعت کے دوران یہ بھی انکشاف ہوگیا کہ ایکٹ اور قانون کے بارے میں کس کس کو پتہ نہیں ہے؟ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بارایک حقیقی آئین دارنے محض آٹھ گھنٹوں کی نشریات میں تمام عمران داروں کی جانبداری کا کچا چٹھہ کھول کر رکھ دیا، قوم نے ایک بار پھر دیکھ لیا کہ کون کون عمران دار بن کر ریسکیو کرتے رہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ون ملین ڈالر سوال کیا اگر سترہ جج بیٹھ کر ایک کام کریں تو ٹھیک ہے لیکن وہی کام پارلیمان کرے تو وہ کیونکر غلط ہوسکتا ہے؟ جس کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے تما م ٹاﺅٹ دلائل کو زمین میں دفن کردیا، اب عوام برملا کہہ رہے ہیں کہ ظالمو سچ اور آئین کی تبلیغ کرنے والا قاضی چھا گیا ہے جو عدالتی ماحول پر چھائی بے انصافی کو سرے سے مٹا ڈالے گا، سپریم کورٹ پاکستان سے بلا ناغہ نیا سرپرائز آرہا ہے جس پر عوام کو خوشی اور اطمینان مل رہا ہے، قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ معطلی ختم کرکے عملی طور پراس پر عمل کرتے ہوئے تمام بینچوں کی تشکیل میں دو سینئر ججوں سے مشاورت شروع کردی ہے جسے تمام قانونی حلقوں میں خوب سراہا جارہا ہے، پہلے روز سے لیکر آج تک قاضی فائز عیسیٰ نے جتنے کیسوں کی سماعت کی ان میں ایسا لگتا ہے یہ وہ سپریم کورٹ نہیں ہے جو ہم سالوں سال سے دیکھتے آرہے تھے، سپریم کورٹ تو بالکل بدل گئی ہے، اکثر وکلاءنے سپریم کورٹ میں کیس کی تیاری کرکے پیش ہونا شروع کردیا ہے، قاضی فائز عیسیٰ نے جرمانے کرکے عملی حکم جاری کردیا ہے کہ کیسوں میں تاخیری حربے استعمال کرنے کی بالکل اجازت نہیں دی جائیگی،21 اکتوبر سے قبل فیض آباد دھرنا کیس کا جو فیصلہ آئیگا‘ اس سے عدلیہ کی تاریخ چمک اٹھے گی، آج 2 اکتوبر ہے، امید ہے آج سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کے دلائل مکمل ہوجائیں گے، جس کے بعد امید کی جارہی ہے کہ سپریم کورٹ اس بل کی منظوری بارے کلین چٹ دے دیگی، جس کے بعد اس ایکٹ کی منظوری کے بعد سے لیکر سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ تک کے بنائے گئے تمام بینچوں کی تشکیل اور سنائے گئے فیصلوں پرسوالیہ نشان لگ جائیگا؟ جس کے بارے غالب امکان ہے کہ سپریم کورٹ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے تمام بینچوں کو اور فیصلوں کو کالعدم قرار دیکر ایک نئی تاریخ رقم کردیگی، عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ جنگی بنیادوں پر ایسے رہنماءقوائد و ضوابط بنانے کا حکم دے کہ ہائیکورٹ سمیت ماتحت عدالتوں میں سالوں سے زیر سماعت کیسوں کی سماعت تیزی سے مکمل ہوسکے، درخواست گزاران سمیت ایسے وکلاءکے لائسنس معطل اور منسوخ کردیئے جائیں جو کیسوں کے التواءاور جھوٹے کیس کرنے میں ملوث ہوں، کئی دہائیوں سے زیر سماعت زمینوں و جائیدادوں اور فیملی جھگڑوں سے متعلق کیسوں کو جلد نمٹانے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے، عوام کا یہ مطالبہ ہے کہ سیشن اور صارف عدالتوں کے کیسوں میں جرمانوں کی مالیت بڑھانے کیلئے اشد ضرورت ہے جس سے عوام کو بہت فائدہ ہوگا۔