اصغر علی شاد ....امر اجالا
Shad_asghar@yahoo.co
سبھی جانتے ہےں کہ دنیا بھر کی مانند وطن عزیز کے طول و عرض میں بھی عید میلاد النبی ﷺ کا تہوار پورے مذہبی جوش و خروش سے منایا گیا۔اسی ضمن میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ آرمی چیف نے پاکستان گرجا گھروں کے نمائندہ وفد سے ملاقات کے دوران یقین دلایا کہ معاشرے کے دیگر طبقات کی مانند اقلیتوں کے مکمل حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔کیوں کہ قومی زندگی میں سبھی اقلیتوں نے ہمیشہ مثبت کردار انجام دیا ہے ۔دوسری جانب منی پور میں مسیحیوں کی نسل کشی جاری ہے علاوہ ازیں کینیڈا میں سکھوں کو منظم ڈھنگ سے بھارت کی سرکاری سرپرستی میںقتل کیا جا رہا ہے جس کا عالمی سطح پر کینیڈا کے وزیر اعظم اور وزیر دفاع نے انکشاف کیا ہے ۔اس ضمن میں وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ اسلامو فوبیا سمیت اس طرح کے خیالات نے انتہا پسندی، نفرت اور مذہبی عدم بردا شت کو جنم دیا ہے، باہمی احترام، مذہبی علامات، صحیفوں اور مقدس ہستیوں کے تقدس کو یقینی بنایا جائے۔ ان خیالات کا اظہارانہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت، موسمیاتی تبدیلی، صاف توانائی، خوارک و دیگر بنیادی انسانی مسائل کے حل کی خواہش تو ” یو این جی اے “ کے حالیہ ایجنڈے پر موجود ہے ہی، ایسے بعض دیگر معاملات بھی ہیں جن پر عالمی برادری کی جانب سے توجہ مرکوز کیا جانا وقت کی ضرورت ہے۔ اسی تناظر میں رائے ظاہر کرتے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے درج ذیل باتوں پر غور کرنا چاہیے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے یہ طرز عمل ایک رجحان کی حیثیت ہی اختیار کر چکا ہے کہ ممالک اپنے تنازعات کو حل کرنے اور چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اپنے تئیں کاوشیں کرتے ہیں اور اقوام متحدہ جیسی عالمی باڈی کے وجود کو کسی کھاتے میں نہیں گنا جاتامبصرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ علاقائی تنازعات اتنی تیزی سے دنیا کو تباہی کے دہانے پر دھکیل رہے ہیں کہ دنیا حقیقتاً عالمی جنگ کے خطرے کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ دنیا کی سپر پاورز اپنی قوت کو بڑھائے جانے میں کوئی دقیقہ و فروگزاشت برداشت نہیں کر رہیں اور ترقی پذیر دنیا اس کے منفی اثرات کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ صحت موسمیاتی تبدیلی صاف توانائی جیسے مسائل پر بات تو بہت کی جاتی ہے لیکن عالمی طاقتیں جو اگر چاہیں تو دیکھتے ہی دیکھتے ان مسائل کے حل کی جانب نمایاں پیشرفت کر سکتی ہیں، غیر سنجیدہ نظر آتی ہیں۔ اگر عالمی دنیا کو ان دیرینہ انسانی مسائل کا حل واقعتا پیارا ہے تو انھیں اس ضمن میں آپسی تعاون کو بڑھانا ہو گا۔ یہ امر بھی قبل ذکر ہے کہ دنیا میں اسلامو فوبیا خطرناک حد تک بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، مختلف ممالک میں پے در پے ایسے واقعات دیکھنے میں آئے جب عمداً شر پسند عناصر کی جانب سے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا، اگر اسلاموفوبیا کے اس سلسلے کو وقت رہتے کنٹرول کرنے کیلئے اقدامات نہ کئے گئے تو عالمی استحکام ہر گزرتے دن کیساتھ کمزور ہوتا جائےگا۔ یہ معاملہ بھی اقوام متحدہ کو فی الفور ٹیک اپ کرنا ہو گا کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا میں سے بڑے ملک اور نام نہاد جمہوریت ہندوستان کے حکمرانوں نے فالس فلیگ آپریشنز کے سلسلے کو ایک ریاستی پالیسی کے طور پر اپنا لیا ہے۔ بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے زہر نے فوج، صحافتی شعبے حتی کہ بینکنگ سیکٹر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔بھارتی میڈیا مودی سرکار کے ایما پر بے سر و پا خبروں کی تشہیر کر رہا ہے اور صحافتی تقاضوں کی پامالی جاری ہے۔ بھارتی فوجی اعزازت اور ایوارڈ کے چکر میں کشمیریوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور بھارتی میڈیا کو ڈرامائی انداز میں اسکی تشہیر کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ امر روز ِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مودی نے سرینگر کو ہمیشہ چناﺅ قریب آنے پر مہرے کے طور پر استعمال کیا۔پاکستان کیخلاف زہر اگل کر انتخابی کامیابی سمیٹنے کی کی عادی بھارتیہ جنتا پارٹی شدید ذہنی دباﺅ کا شکار ہے، یہی وجہ ہے کہ ملکی بدنظمی سے توجہ ہٹانے کیلئے مودی سرکار کی بھونڈی کاوشیں تاحال جاری ہیں ۔ انتخابات سے قبل سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے بھارتی حکومت نے من گھڑت آپریشنز کی جھوٹی خبریں پھیلانا بھی شروع کر رکھی ہیں۔کرناٹک کے انتخابات میں شکست کے بعد مودی سرکار کھل کر ”پاکستان کارڈ“ کھیل رہی ہے تا کہ رواں سال میزورام، راجستھان، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، تلنگانہ اور اگلے برس لوک سبھا چناﺅ میں انتخابی فتح کو یقینی بنایا جا سکے۔
کون نہیں جانتا کہ گزشتہ دنوں بھارتی میڈیا میں مہم چلائی گئی کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فورسز آپریشنز میں مصروف ہیں۔ پھر اننت ناگ میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بھارتی فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں، اس کے بعد بھارتی سیکورٹی فورسز نے مقبوضہ وادی کے طول و عرض میں نام نہاد سرچ آپریشنز کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بھارتی میڈیا کی مدد سے مودی سرکار بلند بانگ دعوے کر رہی ہے جبکہ لائن آف کنٹرول کے گرد و نواح میں مقیم رہائشیوں کی جانب سے حاصل کردہ وڈیوز نے بھارتی دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔ رہائشیوں کے مطابق ایل او سی کے دونوں اطراف کسی قسم کی کوئی فائرنگ یا آپریشن نہیں ہو رہا اور مکمل خاموشی ہے۔ چونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی سیاسی میدان میں کمزور پڑتی جار ہی ہے، لہذا مودی سرکار ہر گزرتے دن ذہنی طور پر مزید دیوالیہ ہو تی جا رہی ہے۔ بی جے پی حکومت نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ اپنی داخلی سیاست میں پاکستان کیخلاف اشتعال انگیزی کا ماحول بنا کر بھارت کی ہندو اکثریت کو بیوقوف بنائے۔ ستیہ پال ملک، پرشانت بھوشن، ادھو ٹھاکرے سمیت متعدد بھارتی لیڈران پہلے ہی عوام کو خبردار کرچکے ہیں کہ مودی حکومت پلوامہ ڈرامہ جیسے کئی واقعات دوبارہ کروائے گی۔ کینیڈا میں تخریب کاری کرنے والے بھارتی نیٹ ورک کا بے نقاب ہونا بھی دہلی کے حکمرانوں کی جانب دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی واضح مثال ہے۔
اس صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں ریاستی دہشتگردی کروا کے بی جے پی متعدد اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے۔ مقبوضہ وادی اور بھارت میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور اقلیت کش فسادات سے دنیا کی توجہ ہٹانا، اور بھارتی عوام کو چکما دے کر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا۔ اس مقصد کیلئے اب مودی سرکار لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے معاہدے کو منقطع کر کے وہاں جنگی ماحول بنانا چاہتی ہے۔ عالمی میڈیا کی متعدد رپورٹس، اور آڈیو ویڈیو شواہد سے واضح ہے کہ بھارتی فورسز لائن آف کنٹرول پر سیاسی مقاصد کیلئے دہشتگردی پھیلا رہی ہے۔ کچھ دن قبل 5 بھارتی فوجیوں کا قتل بھی مودی کی اپنی سیاست چمکانے کی ناکام کوشش تھی۔ جبکہ دوسری جانب اس بات سے ساری دنیا بخوبی آگاہ ہے کہ پاکستان نے عالمی امن کو مضبوط بنانے کیلئے ہمیشہ اپنی بساط سے بھر کر کاوشیں کی اور دہشتگردی کیخلاف ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ امید کی جانی چاہیے کہ بین الاقوامی برادری، عالمی امن کو درپیش ان خطرات کے سدِ باب کیلئے سنجیدہ طرز عمل اپنائے گی۔