بزرگوں کا عالمی دن
ہمارے معاشرتی نظام میں ضعیف العمر افراد کی اہمیت اور افادیت سے انکار کسی طور بھی ممکن نہیں، بزرگوں کا سایہ ماں ،باپ کی شکل میں ہو تو اولاد کو تپتی جھلستی دھوپ میں بھی دعاﺅں کے یخ بستہ حصار میں لیے رکھتا ہے ، اساتذہ کی صورت میں ہو تو علم کی جھلملاتی شمع سے زندگی کی تاریک راہوں کو روشن و منور کر دیتا ہے، اور اگر یہی گھنا سایہ گھرانوں اور خاندانوں کی سرپرستی کر رہا ہو تو پھر تو دینی اور دنیاوی کامیابیوں کا متواتر حصول مقدر بن جاتا ہے۔ ۔ ۔ غرضیکہ ہر دور میں بڑے ،بوڑھوں کی موجودگی بالخصوص نئی نسل کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ۔ لیکن اگر کسی نام نہاد ماڈرن سوشل سسٹم میں بزرگوں کو اُنکے بنیادی حقوق ہی حاصل نہ ہوں ، انہیں قدم قدم پر تکالیف، پریشانیوں ، مصیبت اور اذیتوں کا سامنا ہو، اُنکی عزت ، وقار اور مرتبے کو نظر انداز کیا جا رہا ہو تو یہ عمل نہ صرف عملی اور ا خلاقی پستی کا سبب بنتا ہے بلکہ اس کے مضر اثرات پورے معاشرتی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں جسکا خمیازہ نسل در نسل بھگتنا پڑتا ہے ۔
پاکستان میں عمر رسیدہ خواتین کو بھی بیشمار مسائل کا سامنا ہے ، ان مسائل کو اگر لکھنے بیٹھا جائے تو اوراق کا ڈھیر لگ جا ئے ، سنانے لگیں تو سماعتیں بو جھل ہو جائیں ، محسوس کریں تو درداور اذیت کا احساس غالب آجائے، غرضیکہ عورتوں کو درپیش مصائب کا لا متناہی سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ، خواتین کو وراثتی جائداد میں حق نہ ملنا بھی پاکستان کے اہم ترین مسئلوں میں شمار کیا جاتا ہے ، معاملات کی سنگینی کا اندازہ ہمیں اپنے اردگرد موجودمتاثرہ خواتین کی افسوسناک داستانوں سے بخوبی ہو سکتا ہے ، طاہرہ سلطانہ کو ہی دیکھ لیجیے ، لاہو ر میں رہتی ہیں، عمر رسیدہ ہیں، گذرے وقت کو یاد کرکے اکثر آ بدیدہ ہو جاتی ہیں ، خاوند آرمی آفیسر تھے، سال 1964 میں ا للہ کو پیارے ہو گئے ، طاہرہ صاحبہ گھر یلو خا تون تھیں، شوہر چونکہ انُکا واحد سہارا تھے اسلیے اُنکے ا نتقال کے بعد وہ زندگی کی اذیتوں ، مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں تھی، ہمہ وقت بس یہی خیال ستائے رکھتا کہ اب ہو گا کیا ، کہاں جائیں گے ، کیسے گزارا ہوگا، رہینگے کہاں ، تین چھوٹے بچوں کےساتھ زندگی کا طویل سفر کیسے کٹے گا، انکی ُپڑھائی لکھائی کا عمل کیسے جاری رہے گا، یہ تمام باتیں اُنہیں سخت پریشان اور ذہنی ہیجان میں مبتلا کیے رکھتی تھیں ۔۔۔ بہر حال ، وقت گزرا، حالات نے زرا سی کروٹ بدلی ، اور ہوا کچھ یوں کہ وہ اپنے والدین کے پاس واپس چلی گئیں، اپنوں کا ساتھ ملا تو جینے کی، آگے بڑھنے کی کچھ امید بندھی ، انُکے مرحوم شوہر کی لاہور میں جوائنٹ پراپرٹی تھی ، جا ئداد میںطاہرہ صاحبہ کا بھی حصہ بنتا تھا ، انہوں نے مانگا، لیکن نہیں دیا گیا ، چناچہ 1970 میں لاہور کے سول کورٹ میں مرحوم شوہر کی وراثت کا مقدمہ دائر کر دیا، اُنکا کہنا ہے کہ کور ٹ میں شاذ و نادر ہی عورتیں دیکھی جاتی ہوں لیکن میں کئی برس وہاں جاتی رہی تھی ، ، ہمارے قانونی نظام کا شعور رکھنے والے یہ با آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ کس قدر تگ ود و ، مشکلات اور پیچیدگیوں کا سامنا میں نے کیا ہو گا ۔وقت گذرتا رہا اور میں ایک اعصاب شکن قانونی جنگ لڑتی ر ہی ۔ 62 سالہ ندیم رشید طاہرہ سلطانہ کے اکلوتے بیٹے ہیں ، بتاتے ہیں کہ جب چھوٹے تھے تو کیس سے متعلقہ کاغذی کاروائیوں میں کافی ٹائم صرف ہو جاتا تھا، جسکی وجہ سے اُنکی تعلیم اور دیگر معا ملاتِ زندگی شدید متاثر ہوئے تھے ، وہ اپنی والدہ کو سپورٹ کر تو رہے تھے لیکن خود کافی حد تک ڈسٹرب رہتے تھے ، اُنکی دو بہنوںمیں سے ایک کا انتقال ہو چکا ہے ، ندیم اپنی بہن کی موت کا ذمے دار نامصائب حالات کو ٹھہراتے ہیں ۔ طاہرہ سلطانہ کے مطابق اُنکا کیس سیشن اور ہائی کورٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچا اور 2002میں یہ فیصلہ آیا ( جسے مختصرایوں ہی لکھا جاسکتا ہے ) کہ چونکہ پراپرٹی بہت بڑی ہے، اسے ایک فرد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی پارٹیشن ہو سکتی ہے اسلیے ا سکی نیلامی کی جائے ،اور Auction کے تحت خریدنے والے کو اسکا فوری قبضہ دیا جائے ، طاہرہ صاحبہ اس فیصلے سے بہت خوش تھیں ، لیکن دوسری جانب انہیںقطعی یہ احساس نہیں تھا کہ جائداد کی نیلامی (با وجوہ ءدیگر) نہیں ہو سکے گی ۔
طاہرہ صاحبہ کی عمر 90سال ہو چکی ہیں ، انہوں نے اب عدالتوں میں جانا چھوڑ دیا ہے ، جس دن تارخ ہوتی ہے وہ فون پر رپورٹ لے لیتی ہیں ، لیکن عمر رسیدہ ہونا اُنکے جذبوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنا ہے ، گزرتے وقت نے اُنکی امیدوں کو توڑا نہیں بلکہ جلاِ بخشی ہے ، اُنکی عشروں پر مبنی جدوجہد نہ صرف خواتین کو حوصلہ ، عزم اور ہمت فراہم کرنے کا سبب بن رہی ہے بلکہ ہمارے قانونی نظام میں موجو چیلنجز پر بھی توجہ دلانے میںکامیا ب ہے۔
ہمارے ملک میں نہ جانے کتنی ایسی خواتین ہیں جنہیں وراثتی جائداد میں اُنکا حصہ نہیں مل رہا ، وجوہات چاہے جو بھی ہوں ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوںسے متعلقہ نہ صرف جائداد بلکہ تمام تر سماجی اور قانونی مسائل کے حل کے لیے موئثر ، ٹھوس اور بر وقت اقدامات عمل میں لائے جائیں ۔ اسی طرح سے عمر رسیدہ افراد کو تمام تر حقوق کی فراہمی کے لیے قومی سطح پر پالیسی کا بننا اور اس پر فوری عملدرآمد ہونا ناگزیر ہے۔