نامنظور
اس وقت ملک میں ٹرانس جینڈر ایکٹ نے ایک بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے خود میرا دل ودماغ بھی اس قانون کے لاگو ہونے پر افسردہ ہے۔ دماغ تسلیم ہی نہیں کر رہا کہ مسلمان بھی اس کی حمایت کرسکتے ہیں اور یہ بل پاکستان جیسے اسلامی جمہوری ملک میں قانون کی حیثیت حاصل کرسکتا ہے۔ اس کی ابتدا 2017ءمیں ہوئی جب قومی اسمبلی میں خواجہ سراﺅں کے حقوق کے لئے بل پیش کیا گیا تاکہ ان کو قانونی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ وہ تعلیم حاصل کرسکیں،نوکریاں حاصل کرکے باعزت پیشہ اپنا سکیں۔ ہسپتالوں سے اپنا علاج معالجہ کروا سکیں انہیں وہی حقوق حاصل ہوں جو دیگر افراد کو پاکستان میں حاصل ہیں کیونکہ اسلام میں بھی خواجہ سراﺅں کے حقوق کا ذکر ہے۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا، میں سمجھتی ہوں خواجہ سراﺅں کو باعزت اور باشعور بنانے کے لئے ان اقدامات کی ضرورت بھی تھی تاکہ وہ محفلوں میں ناچ گانے سے ہٹ کر اپنی مرضی سے باعزت زندگی حاصل کرسکیں لیکن مسئلہ اس وقت سنگین ہوگیا جب ان حقوق کا تعین کسی اور طرح سے کیا جانے لگا کیونکہ اسمبلی میں جو بل پیش کیا گیا اس میں ٹرانس جینڈرکی تین طرح سے تعریف کی گئی، پہلی تعریف میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے اعضا میں اللہ پاک نے نقص دائم رکھ دیا انہیں ہم خواجہ سرا بھی کہتے ہیں جو شادی شدہ زندگی گزارنے کے لائق نہیں ہوتے۔اب دوسری تعریف ان لوگوں کی ہے جو بوقت پیدائش تو مکمل انسان ہوتے ہیں لیکن کسی حادثے کے نتیجے میں اپنی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ تیسری قسم وہ ہے جو میر ے خیال میں پہلی دونوں قسم سے زیادہ تعداد میں موجود ہے۔ آپ میں سے کئی لوگوں نے ایسے افراد کے بارے میں پڑھ بھی رکھا ہوگا اور فلموں ڈراموں میں دیکھا بھی ہوگا ایسے لوگ پیدائشی طور پر مکمل انسان اور مکمل صورت اور مرد ہی پیدا ہوتے ہیں لیکن بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کسی نفسیاتی الجھن یا معاشرتی دباﺅ کا شکار ہوکر دوہری شخصیت اختیار کرجاتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں وہ اپنی پیدائشی جنس سے ناخوش ہوتے ہیں۔ اس وقت اختلافات کا باعث آخری دواقسام ہیں جن کو خواجہ سراﺅں کی آڑ میں تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حد یہ ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی پارٹیوں سمیت تمام لبرل پارٹیوں نے اس کی حمایت کا اعلان کر دیا اور بل قومی اسمبلی و سینٹ سے متفقہ طور پر منظور ہوکر2018ءمیں باقاعدہ ایکٹ اور قانون بن گیا۔ اس ایکٹ میں ان افراد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ مکمل عورت یا مرد ہونے کے باوجود شناختی کارڈ پر اپنی مرضی کی جنس کا اندراج کروا سکتے ہیں ۔ مجھے لکھتے ہوئے بھی انتہائی دکھ اور شرم محسوس ہورہی ہے کہ آخر ہم آئندہ نسلوں کو کون ساماحول فراہم کر رہے ہیںہمارے بچے ایسے معاشرے میں پروان چڑھیں گے جہاں عورتوں کی پہچان باقی نہ رہے اور نہ ہی مردوں کی۔ ہماراخاندانی نظام تباہ ہوکر رہ جائے گا ہم ذہنی و اخلاقی پستی کے پاتال میں گرتے چلے جائیں گے ۔نکاح، قانون وراثت اور اسلامی تہذیب کا کباڑہ ہوکر رہ جائے گا۔ یورپین ممالک سے نہایت چالاکی سے اس ایکٹ کو ہمارے ملک میں متعارف کروایا گیا ان مذموم مقاصد کے لئے این جی اوز کو استعمال کیا گیا ۔پیدائشی طور پر نامکمل عورت اور مرد کے لئے نادراکے پاس ایک ہی پیمانہ تھا کہ افراد ایک میڈیکل کروا کر لائیں اس کے بعدمحض چار ہزار افراد نے اپنا میڈیکل پیش کیا اور انہیں شناختی کارڈ جاری بھی کردیا گیا ۔اس کو قانون بناکر لوگوں میں غم وغصہ پیدا کرنے سے کیایہ بہتر نہیں تھا کہ ایسے افراد جو پیدائشی طور پر مکمل انسان ہیں لیکن ان کی عادات صنف مخالف کی طرف رجحان زدہ ہیں ان کا نفسیاتی علاج کروایا جاتا۔ نادرا کی رپورٹ کے مطابق جولائی2018ءسے جون2021 ءکے دوران 16530 مرد اپنی جنس تبدیل کروا کر عورت بن چکے ہیں جبکہ 12154عورتیں اپنے آپ کو مرد کے طور پر رجسٹرڈ کروا چکی ہیں۔