مکالمہ در مکالمہ
ہر شخصیت اپنے واضح و پنہاں اوصاف اور خوبیوں کی بنا پر جانی جاتی ہے۔یہی خوبیاں دوسروں پر جادو کا اثر رکھتی ہیں اور لوگ ان میں سے بعض اوصاف یا خوبیاں اپنانے کی تگ و دو کرتے ہیں۔ ایس ایم ظفر ایسی ہی ایک عظیم شخصیت کے مالک ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں ہی بے حد عزت و احترام پایا ہے۔ ملک کے نامور صحافی و لکھاری مجیب الرحمن شامی اپنے مختصر مضمون بعنوان ”ایس ایم ظفر کی ٹکسال“ میں لکھتے ہیں۔ ”ایس ایم ظفر بہت ممتاز بلکہ ممتاز تر قانون دان تو ہیں ہی، سیاست سے بھی اپنے آپ کو دور نہیں رکھ سکے۔ تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، کئی کتابوں کے مصنف ہیں، ان کے مطالعے اور مشاہدے کی وسعتیں ماپی نہیں جاسکتیں۔ قومی زندگی پر ان کے خیالات و اقدامات نے (بعض اوقات ) گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان کی اجتہادی بصیرت نے انہیں انفرادی شان بخشی ہے۔ وہ مشکل میں گھبراتے نہیں ہیں۔ راستہ بنانے اورسفر جاری رکھنے کی تدبیر کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ وہ مزاحمت کے نہیں مفاہمت کے آدمی ہیں۔ ”جہاد“ نہیں اجتہاد کے قائل ہیں کہ قانون اور سیاست کے میدان میں اجتہاد ہی کو جہاد کہا اور سمجھا جانا چاہیے“۔
ڈاکٹر وقار ملک کی مرتب و تالیف کردہ بہترین کتاب ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر سے ”مکالمہ“ زندگی کے اہم موضوعات کا احاطہ کرتی ایک علمی اور تاریخی دستاویز ہے جودراصل مکالمہ در مکالمہ ہے۔ اس معلوماتی و فکری کتاب کو کئی ایک موضوعات میں تقسیم کیا گیا ہے جیسا کہ حالاتِ زندگی، تصور پاکستان، انسانی حقوق / حقوقِ نسواں، عدلیہ، جمہوریت، مذہب، سائنسی امور ، مسئلہ کشمیر / پاک بھارت تعلقات، مسئلہ فلسطین / اسرائیل، بین الاقوامی امور، اہم قومی مسائل، دہشت گردی، کالا باغ ڈیم، ذرائع ابلاغ، طنزو مزاح، تفریح اور متفرق۔ ان سترہ موضوعات پر ڈاکٹر وقار ملک نے ایس ایم ظفر سے سیر حاصل گفتگو کی ہے جو 672 صفحات پر مشتمل ہے ۔ کتاب کیا ہے؟ علمی، فکری ، سائنسی ،ثقافتی اور سیاسی پہلوﺅں پر تفصیلی گفتگو ہے جسے کئی دنوں کی محنت و مشقت اور سمجھ بوجھ سے پڑھا جاسکتا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر مہدی حسن معروف استاد ابلاغیات و سابق چیئرمین ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اپنے تاثرات بعنوان ”ایس ایم ظفر سے وقار ملک کا مکالمہ “ میں لکھا ہے۔ ”میرے خیال میں یہ مکالمات یقینا ایسے ہیں جن سے کتابوں سے شغف رکھنے والے افراد بخوبی مستفید ہوں گے۔ اس کتاب میں مختلف موضوعات پر ایک صاحب الرائے شخصیت کے نظریات سے انہیں استفادہ کرنے کا موقع ملے گا“۔ محترمہ بشریٰ رحمن سابق ممبر قومی اسمبلی نے اپنے مضمون”مرقع فکر و فن - مردِ آہن ایس ایم ظفر “ میں تحریر کیا ہے کہ ”میں سمجھتی ہوں جہاں ایس ایم ظفر صاحب کے ممنون ہیں وہاں ہمیں نوجوان صحافی کو بھی بہت داد دینی چاہیے ۔ بہت مشکل سے کسی عظیم ہستی کے ساتھ اتنا طویل عرصہ گزارنا، ان کے وقت اور کام کا خیال رکھنا۔ ان کی باتوں کو بڑی محبت اور جانفشانی سے باقاعدہ لکھنا اور پھر مسلسل شائع کرواتے رہنا ۔ یہ کام عقیدت، شوق ا ور احترام کے بغیر نہیں ہوسکتے “۔
ایس ایم ظفرراوین ہیں انہوں نے 1945ءسے 1949 ءتک گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے تک تعلیم حاصل کی ان کا کہنا ہے کہ ”گویا ہم نے گورنمنٹ کالج کو حکومت برطانیہ کے تحت اور آزاد مملکت پاکستان کی حکومت کے تحت ہر دو ادوار میں دیکھا“۔ وہ اپنی یادداشتوں کے انبار سے کچھ باتیں نکال کر لکھتے ہیں کہ ”مجھے یاد ہے کہ سردار ابراہیم جو آزاد کشمیر کی نمائندگی کرنے سیکورٹی کونسل گئے تھے اور 1948 ءکو پاکستان واپس آئے تو ہم نے انہیں ایک بہت بڑی تقریب میںکالج مدعو کیا۔ اگرچہ یہ دعوت ہم نے پولیٹیکل سائنس سوسائٹی کی جانب سے دی جس کا میں جوائنٹ سیکرٹری تھا اور معین قریشی جو بعد میں نگران وزیر اعظم بنے اس کے سیکرٹری تھے۔
ایس ایم ظفر 6دسمبر 1930 ءکو رنگون میں پیدا ہوئے اس طرح 6 دسمبر 2022 کو 92سال کے ہوجائیں گے ۔ زندگی میں ان کی اس دور کی عظیم ہستیوں سے ملاقات ہوئی اور دوستی رہی جن کا ذکر وہ بہت محبت اور انس سے کرتے ہیں۔ جیسے پطرس بخاری، ملک لعل خان، پرنسپل ڈکینسن ، پروفیسر سراج الدین ، ڈاکٹر عبدالقدیر خاں اور متعدد قومی و بین الاقوامی شخصیات۔
زیرِ تبصرہ کتاب ”مکالمہ“ میں مختلف موضوعات کے حوالے سے فکر و فلسفہ بیان کیا گیا ہے کہیں حقوقِ نسواں اور کہیں عدلیہ کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ سیاست، حکومت اور مذہب کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ ایس ایم ظفر نے جج کے بجائے قانون کو بالا تر بتاےا ہے ان کا نکتہ نظر ہے ”جب عدالتوں میں جج صاحبان قانون کی بجائے معاشرتی مسائل پر اپنی سوچ مسلط کرنے لگ پڑیں تو اچھا بھلا قانون جنگل کا قانون بن سکتا ہے۔ میرے اس فقرے کی تائید میں سینکڑوں فیصلے موجود ہیں جو دنیا بھر کی عدالتوں نے کیے۔ ان عدالتوں نے جج صاحبان کو نہ صرف اپنے ذاتی فلسفے اور سوچ کو قانون پر مسلط کرنے سے منع کیا ہے بلکہ انہیں تاکید کی ہے کہ وہ اپنے حلف کی وجہ سے صرف اور صرف قانون کے مطابق فیصلے کریں۔
ایس ایم ظفر محب وطن شہری اور بانی پاکستان قائدا عظم محمد علی جناح کا بے حد احترام کرنے والے فرد ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے سیاسی راہنماﺅں کا احترام کرنا چاہیے۔ ان کے فرمان کو دل و جان سے قبول کرتے ہوئے خود بھی ان کی پیروی کرنی چاہیے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ”قائد اعظم اپنے ملک کے وزیر اعظم سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ بطور گورنر جنرل میں صرف ایک روپیہ تنخواہ لوں گا، لیاقت علی خان کہتے ہیں کہ میں بھی آپ کی تقلید کروں گا۔ قائد اعظم اس پر صرف خوش ہی نہیں ہوئے بلکہ بڑی سنجیدگی سے کہتے ہیں کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں ہمیں اپنے ملک کی خدمت بے لوث ہو کر کرنی چاہیے ........ البتہ محمد علی جناح ایک ایسے قائد ہیں جنہوں نے تاریخ کا رخ بھی تبدیل کیا ، اپنی تاریخ بھی ترتیب دی اور ایک قوم اور نئی مملکت کو کرہ ارض پر وجود بھی بخشا“۔