پنجاب اسمبلی کے جاری طویل اجلاس کا راز
ہمارے ملک میں سیلاب سے سینکڑوں قیمتی جانیں چلی گئیں، لاکھوں افراد اپنے مال مویشی، گھر بار سے محروم ہو کر کھلے آسمان تلے سسک سسک کر حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔ بچے دودھ سے بلک رہے ہیں، بزرگ بھوک پیاس کی شدت سہتے سہتے نا اُمید ہو چلے ہیں۔ اس ملکی آفت میں پورا ملک سوگوار ہے اور اس آفت کا نشانہ بننے والے افراد کیلئے دعا گو ہونے کے ساتھ ساتھ مدد کرنے پر بھی جستجو کر رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں میڈیا پر بھی بھاری ذمہ داری ہے کہ حکومتی امداد کے منتظر متاثرہ افراد کی نشاندہی کر کے حکومت وقت کو ترغیب دے کہ وہ ان بے سہارا افراد کو ممکنہ مدد فراہم کریں۔ مگر میڈیا بھی اس آفت زدہ افراد پر کام کرنے کی بجائے حکومتی ایوانوں اور سیاسی لیڈروں کو ہی ’’ہیڈلائنز‘‘ بنائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے حالات پر مہذب دنیا اور ادارے فکر مند ہیں اور ہر ممکن مدد کرنا بھی چاہتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں۔ معروف غیر ملکی اداکارہ پاکستان کا دورہ کر کے سیلاب زدگان کی حوصلہ افزائی اور اُنکی امداد کیلئے ہر ممکن خدمت انجام دے رہی ہیں۔ دوسری جانب بے حسی کا عالم یہ ہے کہ پاکستانی اداکار اور اداکارائیں ٹورنٹو کے سہانے موسم میں ایوارڈ فنکشن میں شریک ہونے کیلئے جا چکے ہیں۔ کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ٹورنٹو ہی سہی ہم اپنے سیلاب زدگان کیلئے کوئی فنڈ ریزنگ، کوئی چیرٹی شوکر کے اُن کو مدد فراہم کریں۔ اگر اس وقت کوئی سیلاب زدگان کیلئے کام کر رہا ہے تو وہ وزیراعظم میاں شہبازشریف ہیں جو دن رات نہ صرف سیلاب زدگان کے پاس پہنچتے ہیں بلکہ تمام حکومتی مشینری کو بھی اُنکی مدد کیلئے بروئے کار لاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ شہبازشریف ’’آئرن مین‘‘ ہیں اور وہ اپنی ذمہ داری نبھانا بخوبی جانتے ہیں مگر یقین جانیئے شہباز شریف جتنی بھی محنت کر لیں وہ سیلاب زدگان کیلئے کم ہوگی کیونکہ آفت اتنی بڑی ہے کہ فردِ واحد کے قابو میں آنیوالی نہیں۔ دوسری جانب پاکستان کے سیاسی لیڈر عمران خان سیلاب زدگان کی مدد کرنے کی بجائے حکومت وقت کو گرانے کیلئے بڑے سے بڑے جلسے کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ عمران خان کو پرویز الٰہی جیسے زیرک سیاست دان بھی سمجھا نہیں پا رہے کہ یہ وقت سیاسی دھینگا مشتی کا نہیں بلکہ سب کے ایک پیج پر آکر مصیبت زدہ افراد کی مدد کرنے کا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے زرخیز ترقی یافتہ صوبے پنجاب کو بھی نظر لگ چکی ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے حکومتیں ٹرانزٹ میں ہیں۔ ایک پارٹی برسراقتدار آتی ہے تو دوسری پارٹی اُس کو ہٹانے کیلئے ہر حربہ آزماتی ہے۔ اس مرتبہ دکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کو (ن) لیگ کے حلقوں سے خبر ملی ہے کہ وہ ان کے چند اراکین اپوزیشن سے رابطے میں ہیں۔ سپیشل برانچ کی رپورٹ کیمطابق عبدالعلیم خان پی ٹی آئی ارکان کو وفاداریاں بدلنے پر قائل کر رہے ہیں جس پر پرویز الٰہی نے ہاؤسنگ سوسائٹی کمیٹی بنا کر پہلے مرحلے میں علیم خان کو قابو کرنے کیلئے اُنکی سوسائٹی میں ریڈ کروایا تو علیم خان کے سٹاف نے ریڈنگ پارٹی کی درگت بنا ڈالی۔ اب اُنکے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ مگر سننے میں آیا ہے کہ علیم خان اپنے مشن سے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ پرویز الٰہی کو دوسری اطلاع یہ موصول ہوئی کہ گورنر بلیغ الرحمن انہیں اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے کہیں گے اور علیم خان سے ذہنی آہنگی رکھنے والے اراکین اسمبلی اُس روز اسمبلی نہیں آئینگے۔ اس طرح حکومت ختم ہو جائیگی۔ اور (ن) لیگ اپنی حکومت قائم کرے گی۔ مگر اس دفعہ وزیراعلیٰ حمزہ شہباز نہیں ہونگے بلکہ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے معزز بزرگ جن کا تعلق لاہور کے نواحی علاقے سے ہے کو وزیراعلیٰ پنجاب کا حلف اٹھوایا جائیگا۔
پرویز الٰہی نے قانونی مشاورت کے بعد پنجاب اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے سے سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان کو منع کر دیا ہے۔ اس طرح طویل ترین اجلاس چل رہا ہے۔ اراکین اسمبلی مراعات اور الاؤنسس کی مد میں ایک ارب سے زائد رقم وصول کر چکے ہیں۔ یاد رہے یہ اجلاس 15 جون سے وقفے وقفے سے جاری ہے۔ اس اجلاس کو جاری رکھنے کی قانونی وجہ یہ ہے کہ جب اسمبلی اجلاس چل رہا ہو تو گورنر وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے نہیں کہہ سکتے۔ ظلم یہ ہے کہ ایک جانب اشرافیہ اراکین اسمبلی کے لیے کروڑوں روپیہ پھونک دیا گیا اور دوسری جانب سیلاب زدگان ایک پانی کے گلاس اور سوکھی روٹی کو ترس رہے ہیں۔
وفاقی حکومت عملی اقدامات کر کے ہر نئے آنے والے دن بحرانوں سے باہر نکل رہی ہے سونے پہ سہاگہ اسحاق ڈار کی واپسی ہے۔ اسحاق ڈار وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف سے مشاورت کے بعد وزارت خزانہ میں اہم تعیناتیاں کرنیوالے ہیں جن میں سے وزارت خزانہ کے معاونِ خصوصی کیلئے اپنے قریبی سابق بیوروکریٹ شاہد محمود کا نام تجویز کر سکتے ہیں۔گزشتہ کالم میں راقم نے وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات محترمہ شاہیرہ شاہد کی تبدیلی نہ ہونے کا عندیہ دیا تھا کہ اسحاق ڈار کی واپسی سے شاہیرہ شاہد کا تبادلہ پسِ پشت چلا گیا ہے اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسحاق ڈار اُن کے شوہر سابق بیوروکریٹ شاہد محمود کو اپنا محسن سمجھتے ہیں۔ اسحاق ڈار نجی حلقوں میں کہتے ہیں کہ ’’شاہد محمود نے بُرے وقت میں اُن کی پاکستان سے لندن روانگی میں خاصی مدد کی تھی۔‘‘ اس لئے وہ اس خاندان کے معترف ہیں۔ وفاق میں تعینات سیکرٹری خارجہ سہیل محمود اپنی مدت ملازمت ختم کر کے رخصت ہو گئے ہیں۔ یورپی یونین سے بلوائے گئے سفیر اسد مجید کو بطور سیکرٹری خارجہ تعینات کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
دوسری خبر یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی آئی جی پنجاب فیصل شاہکار سے ناراضی کی وجہ لیہ میں ڈی پی او کی تعیناتی ہے۔