اتوار ، 5ربیع الاول 1444ھ، 2اکتوبر 2022ء

میڈم زیبا کو بتانا عمران خان آیا تھامعذرت کرنا چاہتاتھا‘ عدالتی عملے سے خان کا مکالمہ
کیا ایسی ہوتی ہے معذرت ؟خان صاحب بڑے طمطراق سے کچہری آئے تو ان کے ہمراہ وکلا ودیگر کا ہجوم تھا۔ یہ دیکھ کر پولیس نے سیشن جج زیبا چوہدری کے کمرے کا دروازہ بند کردیا۔ خان صاحب کو بتایا کہ جج صاحبہ موجودنہیں چھٹی پر ہیں۔ اس پر خان صاحب نے جس فلمی انداز میں عدالتی عملے سے گفتگو کی اس سے توصاف پتہ چلتا ہے کہ وہ معافی مانگنے نہیں آئے تھے۔کیا معافی مصطفی قریشی یا مظہر شاہ کے انداز میں مانگی جاتی ہے۔ خان جی کے الفاظ میں ادب آداب کا دور دور تک شائبہ بھی نہیں تھا عدالتی عملے سے کہا کہ میڈم زیبا کو بتانا کہ عمران خان آیا تھا معذرت کرنا چاہتاتھا۔ریڈر آپ گواہ رہنا۔ اب کوئی بتائے کہ کیا یہ انداز ہوتاہے ملزم کا جج کے سامنے نہ سہی ان کے بارے میں بات کرنے کا، مسئلہ معذرت نہیں معافی کاہے۔ معذرت کا تووہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں۔ معافی اور معذرت میں تھوڑا نہیں بڑا واضح فرق ہے۔ خداجانے ہمارے خان جی کو کب عقل آئے گی کہ ہر جگہ ہرایک کے ساتھ الجھنا درست نہیںہوتا بقول شاعر ’’الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر ‘‘ تو جناب ایسے معاملات میںکبھی شعلہ کبھی شبنم بننا پڑتاہے۔ورنہ دامن اور قبا کے تارتار ہونے کاخطرہ رہتاہے۔ سیاستدان کی زندگی تو ویسے ہی قدم قدم پر الجھنے اور مصالحت سے عبارت ہوتی ہے۔ آخر خودبھی خان جی یہ جو یوٹرن لیتے ہیں یہ اور کیا ہے۔ یہی تو مصلحت ہے جس کو یوٹرن کانام دیاجاتاہے۔
٭٭٭٭٭
انصاف ہونا شروع ہوگیا‘ نوازشریف نے فیصلہ اللہ پر چھوڑ دیاتھا:حسین نواز
تو پھر جب معاملہ اللہ کریم پر چھوڑ اہے تو ڈر کاہے کا۔ میاں صاحب اب ذرادل بڑاکریں اور وطن واپس لوٹ آئیں۔ یہاں کے مسلم لیگ والے یک زبان ہو کر
آلوٹ کے آجا میرے میت
تجھے میرے گیت بلاتے ہیں
کا کورس گارہے ہیں۔ ویسے بھی اس وقت ان کا آنا شاید سعد ثابت ہو مسلم لیگ(نون) والوں کے لیے جو مسلسل پی ٹی آئی کے ہاتھوں سیاسی میدان میں پسپائی پر مجبور ہورہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے بڑے بڑے جلسے دیکھ کر تو مسلم لیگ نون والوںکے ہوش اڑگئے ہیں۔ اب میاں نواز شریف کی واپسی ان کے لیے ’’ٹارزن کی واپسی‘‘ ثابت ہوسکتی ہے۔ اور سیاسی جنگل میں شیر کی دھاڑ سن کر شاید رنگ محفل جم جائے۔ ورنہ اس وقت عمران خان چوکے چھکے یارکر ان کے چاروں طرف کھیل رہاہے۔ اسے آؤٹ ہونے کابھی ڈر نہیں۔ توپھر میاں نواز شریف بھی میدان میں آجائیں،یوں
قیس جنگل میںاکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
یوں ان کے اور خان صاحب کے درمیان زبردست سیاسی میچ پڑسکتاہے جو آنے والے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔ویسے بھی اب بہت ہوچکی میاں جی کو آجانا چاہیے۔اور ان کے چاہنے والے ’’آجاپردیسیا واسطہ ای پیاردا‘‘ کہہ کر ترلوں پر اتر آئے ہیں کہ وہ آجائیں۔جو ہونا ہے وہ بعد میں دیکھیں گے۔ اب کیا کریں میاں جی کا بھی تجربہ ہے کہ ہمارے یہ سب مجنوں چوری کھانے والے ہیں خون دینے کا ان کا ان میں حوصلہ نہیں شاید یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب آنے سے گریزاں ہیں۔ ویسے بھی جب انصاف شروع ہوگیا ہے بقول حسین نواز تو پھر امید رکھیں آپ کو بھی انصاف مل سکتاہے۔
٭٭٭٭٭
8 ارب میں خریدے گئے دو بحری جہاز خراب۔ ایک لاکھ ڈالر جرمانہ
کہتے ہیں ڈائن بھی سات گھر چھوڑ کر وار کرتی ہے۔ مگر افسوس ہمارے مہاتماقسم کے بیوروکریٹس کی کارکردگی دیکھیں تو رونا آتاہے بقول غالب
آئے ہی بیکسی عشق پہ رونا غالب
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلامیرے بعد
یہاں تو واقعی رونا آتاہے۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو قومی خزانے کو اربوں کانقصان پہنچاتے ہیں اور پھر بھی آرام سے اپنے عہدوں پر فائز رہتے ہیں۔ ان کو اس نقصان پہ کیوں سرعام مصلوب نہیں کیا جاتا۔تاکہ دوسرے بھی عبرت پکڑیں۔ اب جس منسٹر نے سیکرٹری یا محکمے نے ان دو8ارب روپے میں خریدے خراب جہازوں کی منظوری دی انہوں نے لازمی طور پر اس سودے میں خوب کمایا ہوگا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ چھان پھٹک کے بغیر یہ خراب جہاز خریدے گئے یہ کوئی معمولی بات نہیں اربوں کا معاملہ ہے۔ اب ان میںایک خراب جہاز کو سعودی عرب کی بندرگاہ پر ٹھہرنا پڑاتو ایک لاکھ ڈالر کی رقم وہاں جرمانے میں ادا کرنا پڑی۔ کس مائی کے لعل میں ہمت ہے کہ وہ یہ جرمانے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے خود ادا کرے۔ قومی خزانہ چونکہ مال مفت ہے اس لیے اسے نقصان پہنچا تے ہوئے کسی کا دل نہیں رکھتا۔ حکومت اس ساری صورتحال کا نوٹس لے اور خریداری میں ملوث ہر شخص اور ادارے کو کڑی سزا دے۔ کسی کو خواہ وہ کتنے بڑے عہدے پر فائز کیوں نہ ہو معاف نہ کیاجائے۔ جنہوں نے دوبحری جہاز خریدے وہ بھی ناکارہ اور خراب کیاقومی خزانہ کسی کے باپ کی جاگیر ہے۔
٭٭٭٭٭
پنجاب میں آٹے کی قلت جاری‘ روٹی اور نان مہنگا ہوگیا۔
جب پنجاب حکومت کی ساری توجہ صرف سرکاری افسران کے تبادلوں پر ہو گی تو پھر یہی ہوتا ہے۔ جب سے نئی حکومت آئی ہے‘ اس کا صرف یہی کام رہ گیا ہے ’’صبح تبادلہ شام تبادلہ صحت کا پیغام تبادلہ‘‘ سمجھ نہیں آرہا کہ ایسا کرنا کیوں ضروری ہو گیا۔شاید حکمران بھول رہے ہیں کہ سرکاری افسران ہر آنے والے حکمران کے ماتحت ہوتے ہیں۔ وہ جو کہے گا‘ وہ کریں گے۔ جو گیا اسے کون پوچھتا ہے۔ سب آنے والے کو سلام کرتے ہیں۔ جی حضوری میں سبقت لے جانے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ اب ایسے سرکاری افسران خواہ انتظامیہ کے ہوں یا پولیس کے‘ ان کو یوں آئے روز بوریا بستر اٹھا کر کوچ کا حکم دینا زیادتی ہے۔اگر اتنی ہی محنت اور لگن سے صوبائی حکومت صوبے میں آٹا کی قلت پرقابو کیلئے کام کرتی تو یقین کریں اس وقت صوبے میں آٹے کی قلت کی جو ہاہاکار مچی ہے‘ روٹی جس کا وزن بھی کم کر دیا گیا ہے‘ اب 12 روپے میں دستیاب ہے۔ نان کی تو بات چھوڑیں‘ وہ 20 کا ہوگیا‘پیسے زیادہ اور وزن کم کی یہ روٹی دیکھ کر تو ہول اٹھتا ہے کہ یہ کیا ظلم ہے۔ جواب میں کہا جاتا ہے آٹا سمگل ہو رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو روکیں۔ ملزمالکان کہتے ہیں گندم کا پورا کوٹہ نہیں مل رہا۔ اب ان کو کون کہے کہ بھائی جو سٹاک جمع ہے‘ گودام بھرے ہیں‘ ان کو بھی استعمال میں لائیں ورنہ سندھ کی طرح لاکھوں من گندم بوریوں میں پڑے پڑے مٹی ہو جائے گی جسے بعد میں جانور بھی منہ نہیں لگاتے۔ کیا غریبوں کے منہ سے روٹی چھیننا ظلم نہیں۔