محراب ومنبر کی اہمیت قُرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک مستحکم اور اس کی اہمیت وافادیت مسلمہ حیثیت کی حامل ہے ۔ محراب کا لفظ دراصل ’’حرب‘‘ یعنی جنگ سے نکلا ہے جس کا پس منظر یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں میدانِ جنگ میں ایک مخصوص جگہ ہوتی تھی، جہاں فوج کا سپہ سالار کھڑے ہو کر اپنی فوج اور سپاہیوں کو ہدایات دیتا، حوصلے بڑھاتا، جنگی حکمت عملی بتاتا، مجموعی صورتحال پر نگاہ بھی رکھتا اور حسبِ ضرورت ہدایات بھی جاری کرتا رہتا، قدیم عرب میں اس مقام کو ’’محراب‘‘ کہا جاتاتھا ۔ اسلام کے نور نے زمانے کو مزّین اور منوّر کیا اور دیگر بہت سی اصطلاحات اور الفاظ کے ساتھ لفظ ’’محراب‘‘ میدانِ جنگ سے نکل کر مسجد کی زینت اور ہدایت وسلامتی کا منبع بنا ،جہاں اب سالارِ جنگ کی بجائے ’’خطیب مسجد‘‘ باطل قوتوں سے برسرِ پیکار، شیطان کی فریب کاریوں کے خلاف کمربستہ ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا مبلغ، شریعت و دین کی ترویج وتبلیغ کا علمبردار، سماجی بہبود، سوشل سیکیورٹی اور ناگہانی آفات وحوادث کے حوالے سے عامۃُ المسلمین کو مستعد اورسوسائٹی کو بیدار رکھتا ہے۔ محراب ومنبر آ ج بھی اتنا بڑا اور مؤثر ’’میڈیا‘‘ ہے،جتنا کے ماضی میں تھا کہ جہاں سے بلند ہونیوالی آوازآنِ واحد میں معاشرے پر فوری اثرات مرتب کرتی ہے۔ گوکہ امتدادِ زمانہ نے اس شعبہ پر بھی کچھ منفی اثرات مرتب کیے مگر اسکے باوجود محراب ومنبر کی اثر افرینی اور رسوخ معتبر اور مسلمہ رہا۔ 2011ء میں جب پاکستان اور بالخصوص پنجاب اور لاہور پر ڈینگی کی یلغار ہوئی تو پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف نے جُہدِ مسلسل، یقین محکم، عمل پیہم اور ہمہ وقت متوجّہ ہوکر اس ناگہانی افتاد کا ناصرف مقابلہ کیا بلکہ اس افتاد پر مکمل طور پر قابو پایا، مورخہ 6اگست 2015ء کو ایوان اوقاف میں ڈینگی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر اوقاف میاں عطا محمد مانیکا کے یہ الفاظ یقیناً بڑے وقیع تھے کہ ’’انسداد ڈینگی کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب کا کردار تاریخ ساز ہے۔ انہوں نے کہا کہ میاں شہباز شریف نے ڈینگی کا جس جرأت اور حکمت عملی سے مقابلہ کیا اور قوم کو بھی اس کے لیے مستعد کیا… یہ انہی کا حصہ ہے جس کی تاریخ سے کوئی اورمثال پیش کرنی ممکن نہیں‘‘۔
سال 2011ء میں جب قوم کا ’’ڈینگی‘‘ سے واسطہ پڑا تو صوبائی سطح پر ’’ڈینگی‘‘ کیخلاف اس مہم جوئی کیلئے جو ’’مشترکہ ورکنگ گروپ‘‘ جناب وزیراعلیٰ پنجاب کی سربراہی میں سرگرم عمل ہوا اس میں محکمہ اوقاف ومذہبی امور کوبھی شامل کیا گیا۔ ابتدائی طور پر یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس اُفتاد کیخلاف نبردآزما ہونے کیلئے محکمہ اوقاف کیا کردار ادا کریگا لیکن محکمہ کی اس ’’سماجی آگاہی مہم‘‘ میں جب پنجاب بھر کی بڑی مساجد کے محراب ومنبر اور اس سے وابستہ آئمہ/ خطبا اور علماء کی مضبوط اور توانا آواز شامل ہوئی تو اس کے اثرات وثمرات فوری طور پر محسوس ہونے لگے۔ چنانچہ ’’ڈینگی سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے‘‘ کا پیغام بڑی سُرعت اور تیزی سے عامۃ الناس تک پہنچااور پھر اس سے بچاؤ کے حوالے سے حفاظتی تدابیر اور علاج معالجہ کے سلسلے میں غلط تصورات کا قلع قمع ہوا اور قوم وملّت کی صحیح راہنمائی کافریضہ اسی محراب ومنبر سے ادا کیا گیا۔ محکمہ اوقاف ومذہبی امور نے ’’انسداد ڈینگی‘‘ کی اس مہم کا دائرہ اس حد تک وسیع کیا کہ ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان‘‘ کی مرکزی قیادت جس میں مفتی منیب الرحمن، قاری محمد حنیف جالندی، مولانا عبدالمالک، مولانا عبدالرحمن لدھیانوی اور قاضی نیاز حسین نقوی کی طرف سے باہمی اتفاق سے ’’مشترکہ اعلامیہ‘‘ جاری ہوا جس میں انہوں نے کہا:
’’ہمارا وطن اس وقت کئی داخلی اور خارجی مسائل کا شکار ہے، ان میں سے ایک… صوبہ پنجاب میں ڈینگی وائرس کی مہلک بیماری اور سیلاب کی آفت ہے پوری قوم کو متحد ہو کر عزم وحوصلے کے ساتھ ان آفات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کسی بھی خطرے، مرض اور وبا کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ ڈینگی کے انسداد میں احتیاطی اقدام ایسا اسپرے ہے جو اسکے وائرس کو جڑ سے ختم کردے۔ یہ یقینا اور لازماً حکومت کی ذمے داری ہے لیکن معاشرے کے باوسائل افراد کا بھی دینی وملی فریضہ ہے کہ اس میں ہاتھ بٹائیں اور خاص طور پر آئندہ سال موسم شروع ہونے سے پہلے اسپرے کا مؤثر انتظام کیاجائے۔ ہر فرد کی ذاتی ذمے داری بھی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرے، ڈاکٹر حضرات صفائی، پانی کو ڈھکنے کے علاوہ جو مشورے دے رہے ہیں ان پر عمل کیا جائے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘۔ وبائی امراض کی صورت میں کسی بھی طرح کی بے احتیاطی اپنے آپ کو اور دوسروں کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔
دوا اور علاج اسباب میں سے ہیں اور ان اسباب کو اختیار کرنا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے لیکن ہر مومن کا ایمان ہے کہ اسباب کا مؤثر ہونا اﷲ تعالی کی مشیت پر موقوف ہے۔ اسی طرح دعا و استغفار بھی اسباب ہیں اور انکی قبولیت بھی اﷲ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے لیکن محض دعا کرنا اور ہاتھ باندھ کر بیٹھ جانا اور اسباب کو اختیار نہ کرنا سنت رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور توکُّل کیخلاف ہے اس لیے مومن کا فرض ہے کہ اسباب کو اختیار کرے۔ پس موجودہ حالات میں اہلِ پاکستان (حکومت ہو یا عوام) کو ہاتھ پر ہاتھ باندھے رہنے کے بجائے تمام دستیاب اسباب کو اختیار کرنا چاہیے اور پھر دفعِ بلیات کے لیے اﷲ تعالیٰ کی نصرت کا طلب گار بننا چاہیے۔ میڈیا کا عوام میں آگہی پیدا کرنا اور عوام کی شکایات کو منظر عام پر لانا نہایت قابل تحسین ہے لیکن ازراہِ کرم انداز ایسا اختیار کریں کہ عوام میں خوف کی لہر (Panic) نہ پھیلے۔
دین اسلام سوشل سیکورٹی، معاشرتی بہود، سماجی فلاح اور ماحولیاتی پاکیزگی کا کس حد تک قائل ہے اس کی اہمیت نبی اکرمﷺ کے اس فرمان سے پوری طرح اجاگر ہوتی ہے۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’برتنوں کو ڈھانپ کر رکھا کرو اور مشکیزے کا منہ باندھ دیا کرو کیونکہ پورے سال کی کسی ایک رات میں وبا نازل ہوتی ہے کہ جس کا حصہ ایسے برتن یا ایسے مشکیزے میں نازل ہوتا ہے کہ جو ڈھانپا ہوا نہ ہو‘‘۔ اسی طرح آپﷺ نے ایک اور مقام پر فرمایا کہ ’’گھر کے باہر والے حصے کو اور اسی طرح گھر کے صحن اور پورے گھر کو صاف رکھا کرو‘‘۔ (ترمذی)
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایسی آفات وبلیات کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام کی صحیح دینی فکر کو سمجھیں اوراس کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں۔ اسی سے ہماری سوسائٹی مربوط اور محفوظ ہوگی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024