بڑوں بزرگوں کا ادب
ہم سب کو سکھلاتا ہے دیں ہمارا
پہنچو مدد کو ہے جس نے پکارا
ادب اور آداب سکھلائے ہم کو
نہیں کوئی تفریق‘ جو بھی کوئی ہو
نبی نے ہمارے یہ سب کر دکھایا
نہیں لوٹا خالی‘ کوئی جو بھی آیا
بزرگوں بڑوں کا ادب ہم پہ لازم
وہ ہوں چاہے افسر یا ہوں وہ ملازم
ادب میں پوشیدہ مرادیں ہماری
کبھی پھل نہ پایا جو ہے اس سے عاری
جو ہو بے ادب‘ رہتا ہے بے مراد
جو ہے باادب،ہے وہی شادوباد
استاد کا بھی ہے اک خاص رتبہ
ہو چاہے وہ عرفان یا ہو وہ عُتبہ
مقام اس کو حاصل ہے روحانی والد
ہیں استاد میرے یہ محمود وخالد
یہی حسنِ اخلاق پہچاں ہماری
یہ بد خلقی معاشرتی ہے اک بیماری
ادب اور اخلاق سے ہے دین پھیلا
وہ انساں نہیں جو بھی ہے من کا میلا
ہمارا بھی ہے آنے والا وہ کل!!
جو ہے باادب پاہی لے گا وہ پھل
(فاروق اے حارث)