ادب پہلا قرینہ ہے‘ محبت کے قرینوں میں ........ بزرگوں اور اساتذہ کے عالمی دن
مظہر حسین شیخ
ادب اور اخلاق کسی بھی قوم کا طرہ امتیاز ہے گو کہ دیگر اقوام یا مذاہب نے اخلاق و کردار اور ادب و آداب کو فروغ دینے میں ہی اپنی عافیت جانی مگر اس کا تمام تر سہرا اسلام ہی کے سر جاتا ہے جس نے ادب و آداب اور حسن اخلاق کو باقاعدہ رائج کیا اور اسے انسانیت کا اولین درجہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بات کی جاتی ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں زبان (یعنی اخلاق) سے پھیلا۔ حسن اخلاق اور ادب پر لاتعداد احادیث مبارکہ ہیں کہ چھوٹے ہوں یا بڑے‘ سب کے ساتھ کس طرح ادب سے پیش آنے کی تلقین اور ہدایت فرمائی گئی ادب اور اخلاق کسی معاشرے کی بنیادی حیثیت کا درجہ رکھتا ہے جو معاشرے کو بلند تر کر دینے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ حضرت ابو داﺅدؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا۔ قیامت کے دن نامہ اعمال کے ترازو میں حسن خلق سب سے وزنی ہو گا۔ (ترمذی) حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا قیامت کے دن میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب وہ شخص ہو گا جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں گے۔ (ابو داﺅد‘ ”یعنی جو ہر ایک سے حسن خلق اور ادب وآداب سے پیش آئے گا چھوٹوں کے ساتھ محبت و پیار اور بڑوں بزرگوں کے ساتھ ادبسے بات کرے گا۔ کوئی بات ناگوار بھی گزرے تو بداخلاقی نہیں کرے گا اور بڑوں چھوٹوں کا لحاظ ملحوظ رکھے گا۔“ حضرت اسامہ ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی کریم سے کسی نے دریافت کیا‘ رسول اللہ سب سے بہتر انسان کو کیا چیز عطا ہوئی ہے؟ آپ نے فرمایا! نیک اخلاق۔ (ابن حبان) حضرت سفیان ؓ نے دربار رسالت میں عرض کیا۔ یا رسول اللہ ! وہ کون سی چیز ہے جس کی احتیاط بہت ضروری ہے؟ سرکار دو عالم نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔ (ابوالشیخ) حضرت معاذ بن جبلؓ سے نبی کریم نے فرمایا‘ گناہوںسے بچنے کی ترکیب یہ ہے کہ زبان کو روک لے۔ (ترمذ) ”یعنی ہر ایک کے ساتھ ادب اور اخلاق سے پیش آئے چھوٹوں کی عزت اور بڑوں کا احترام کرے۔ حضرت شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ جو شخص بچپن میں ادب کرنا نہیں سیکھتا بڑی عمر میں بھی اس سے بھلائی کی کوئی امید نہیں۔ ”یعنی جب بچپن میں بے ادب اور گستاخ رہے گا تو وہ اتنا پختہ ہو جائے گا کہ بڑا ہو کر بھی اسی طرح ہی بدتہذیب ہی رہے گا۔ “ ایک معروف برطانوی سکالر کا کہنا ہے کہ جو کوئی دوسروں کا ادب نہیں کرتا‘ کوئی دوسرا بھی اس کا ادب نہیں کرتا (ہربرٹ سپنسر) احادیث کی روشنی اور مفکرین کے اقوال سے (جو کہ اسلام ہی کا شاخسانہ ہے)کہ ادب آداب اور حسن اخلاق ہر معاشرے اور ہر قوم کا وقار اور پہچان ہے جو قومیں اخلاق و کردار سے عاری ہیں‘ زوال پذیر ہیں اس لئے کہ یہ قوتوں کی بنیاد ہے۔ بنیاد جس قدر مضبوط ہو گی عمارت اس قدر شاندار ہو گی۔
2 اکتوبر کو بزرگوں جبکہ 5 اکتوبر کو اساتذہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد بزرگوں اور اساتذہ کی اہمیت کو عملی سطح پراُجاگر کرنا ہے نہ کہ صرف تقریروں تک محدود رکھنا ہے ۔کہاوت مشہور ہے کہ باادب بامراد بے ادب بے مراد۔ جس نے بڑے بزرگوں کا ادب کیاان کی دل وجان سے عزت کی ان کی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اس نے اپنی منزل پا لی وہ بامراد ہوا اور جس نے بڑے بزرگوں کی عزت نہ کی ان کا خیال نہ رکھا ان کا احترام نہ کیاان کا کہا نہ مانا وہ اپنی منزل سے نہ صرف محروم رہا بلکہ دوسرے بھی اس کی عزت و احترام نہ کریں گے۔ جس نے بڑے بزرگوں کا احترام نہ کیا آنے والی نسلیں بھی اس کو عزت کی نگاہ سے نہ دیکھیں گی۔بڑے بزرگوں کا مطلب یہ نہیں کہ صرف گھر کے افراد اوروالدین شامل ہیں۔اس میں ہروہ شخص شامل ہے جو عمر میں آپ سے بڑا ہو۔والدین تو عظیم ہوتے ہیں ان کا احترام کرنا اورکہا مانناہمارافرض ہے،انکی جتنی بھی خدمت کی جائے کم ہے۔ ننھے منے دوستو! والدین کی حکم عدولی کرنے والا نہ صرف ناکام ہو گا بلکہ گناہ کا مرتکب بھی ہو گا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے کہ تمہارے ماں باپ میں سے ایک یا دونوں بوڑھے ہو جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو،والدین اپنے بچوں کی ہر خواہش کا احترام کرتے ہیں ان کا ہر کہا مانتے ہیں نہ چاہتے ہوئے بھی بچوں کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو بچوں کا بھی فرض ہے کہ ان کی ہر خواہش کا احترام کریں ان کا حکم مانیں ان کے اگے اُف تک نہ کہیں۔ خیر یہ تو والدین ہیں جن کی خدمت کرنا اور حکم ماننا ہمارا فرض ہے ان کامقام بلندہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی بڑا بزرگ ہو ان کا بھی احترام کرنا چاہئے کیونکہ بڑوں کی دُعاو¿ں میں بڑا اثر ہوتا ہے۔ سکولوں میں اکثر بڑی عمر کے مرد اورعورتیں ملازمت کرتی ہیں ان کے ساتھ بھی اخلاق سے بات کرنی چاہئے۔ ہمسایوں میں بھی بڑے بزرگ رہتے ہیں ان کے ساتھ بھی اخلاق سے پیش آنا چاہئے ہمسایوں کے بڑے حقوق ہیںان کاذکرقرآن پاک اورحدیث شریف میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ اچھے اخلاق کے مالک کو ہر کوئی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ان کی عزت کی جاتی ہے ۔ غیر موجودگی میں ان کی تعریفوں کے پُل باندھے جاتے ہیں۔اکثر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ گھروں میں بڑی عمر کی خاتون یا مرد کام کرتے ہیں۔زیادہ تر بچوں کا رویہ ان کام کرنے والوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوتااور وہ ان پر اپنا رُعب جمانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اگرچہ وہ بچوں کو منہ پرکچھ نہیں کہہ سکتے لیکن دل میں یقیناً برا بھلا ضرور کہتے ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کی غیر موجودگی میں آپ کو بددعائیں دیتے ہوں۔آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ بعض ذہین اور ہونہار طالب علم امتحانات میں وہ پوزیشن حاصل نہیں کر پاتے جتنے وہ ذہین ہوتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو ایسے طالب علموں کو اپنے آپ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان سے کیا غلطی سرزد ہوئی ایسے طلبہ و طالبات اساتذہ کی عزت و احترام کرتے ہیں؟بڑے بزرگوں کاخیال رکھتے ہیں؟بڑوں کی دُعائیں لیتے ہیں؟یقیناً کسی نہ کسی جگہ ان سے غلطی ضرور ہوئی ہو گی جائزہ لینے کے بعد وہ غلطی نہ کرنے کا عہد کریں۔مشاہدے میں یہی بات آئی ہے کہ ایسے طلبہ وطالبات جب کمرہ امتحان میں جاتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں اور وہ ایسی پوزیشن حاصل نہیں کر پاتے جن کی اُمید رکھتے ہیں۔اساتذہ کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے جو طالب علم کو فرش سے عرش تک لے کر جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے اپنے اساتذہ بڑے بزرگوں کا احترام کیا کامیابی نے اس کے قدم چومے وہ زندگی کے ہر امتحان میں کامیاب و کامران ہوا۔آج 2 اکتوبر ہے اور آج بزرگوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے اس کا یہ مقصد نہیں کہ اس دن ہی ان کی عزت و احترام کیا جائے ہر روز ان کا دن منانے کی ضرورت ہے۔ بزرگوں کا احترام کرنے والوں کو کوئی مشکل درپیش نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ ان کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دور فرماتا ہے۔5 اکتوبر اساتذہ کا دن ہے۔ اس روز بھی اس دن کے حوالے سے تقریبات کا اہتمام کیا جائے گا۔ اس دن کو اُجاگر کرنے کے لئے ہر طالب علم کو چاہئے کہ وہ ہر دن اساتذہ کا دن منائیں تاکہ وہ کامیابی حاصل کر سکیں۔ ننھے منے دوستو! آپ سکولوں کالجوں میں زیر تعلیم ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ اچھے بُرے میں تمیز کر سکتے ہیں کوئی ایسا قدم نہ اُٹھائیں کہ بعد میں پچھتانا پڑے آپ والدین کی اُمیدوں کا سہارا ہیں والدین کی خدمت کریں ان کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ جہاں تک ہو سکے بزرگوں والدین کا احترام کریں۔