باراک اوباما اکثر امریکی صدر سے کسی یونیورسٹی پروفیسر کا سفر اختیار کرتے لیکچر دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ان کا تازہ لیکچہ مسلم اُمّہ کے لئے تھا جس کے لئے انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے مقام کا انتخاب کیا۔ اس موقع پر ”پروفیسر“ اوباما نے امتِ مسلمہ کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ہاں شدت پسندی کو ترک کر دے، امن اور سکونِ عالم کی پیغامبر بن جائے، جنگوں کی بجائے سفارت کاری کے ذریعے اپنے معاملات کا حل ڈھونڈے، قانون کی بالادستی، فقہی اور مسلکی اختلافات سے اجتناب اور اپنے مخالفین کے لئے برداشت کے اصولوں کو اپنی اجتماعی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنائے۔ میں یہ تقریر سن رہا تھا اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس تقریر کا تضاد میرے سامنے کھل کر آتا جا رہا تھا۔ ”پروفیسر“ اوباما کی ہر اچھی بات کو ان کا اور ان کے ملک کا اپنا عمل رد کرتا جا رہا تھا اور میرا فوری ردعمل یہ تھا: LOOK WHO IS TALKING۔ گویا کہ وہ شخص بات کر رہا تھا جو چار سال قبل ایک تبدیلی کا نعرہ لیکر آگے بڑھا تو سیاہ فام اقلیت سے تعلق ہونے کے باوجود جنگ سے تنگ آئے ہوئے امریکی عوام نے اُسے مسیحا جانتے ہوئے صدر منتخب کیا مگر چند ہی دنوں میں وہ اُسی امریکی لابی کے پریشر میں آ گیا جس نے صدر بُش کو انگلیوں پر نچایا تھا اور آج چار سال گزرنے کے باوجود امریکی عوام جنگی ہیجان سے نجات نہیں پا سکے بلکہ اسرائیل کے دباﺅ کی وجہ سے ایران کے خلاف جنگ بھی ان کے سروں پر منڈلا رہی ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اگلے سال کے دوران امریکی صدر خواہ کوئی بھی ہو اُسے اسرائیلی دباﺅ کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے ایران کے خلاف کوئی نہ کوئی فوجی کارروائی کرنا ہی ہو گی۔
امریکی صدر ماہرِ فنِ تقریر ہیں مگر کاش کہ وہ زورِ خطابت کے بجائے تھوڑا سا زور امریکی تاریخ پڑھنے پر لگا دیتے جو امریکہ کو ایک بین الاقوامی غنڈہ ریاست ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ تضاد سے بھرپور اس تقریر کو شاید اسی طرح وہ حقیقت کے قریب لا سکتے تھے مگر وہ ایسا نہ کر سکے۔ تاہم ان سے ہماری گزارش یہ ہے کہ انہی کی امریکی کانگریس لائبریری نے 1890 سے 2001 کے دوران 133 دفعہ مختلف ممالک میں فوجی مداخلت کی داستان بیان کی ہے جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
خود پاکستان میں ہی دیکھ لیجئے گزشتہ کئی سالوں سے جاری غیر قانونی ڈرون حملوں کے ذریعے سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے اور ہزاروں زخمی اور معذور ہو چکے ہیں مگر ”پروفیسر“ اوباما پر ان کی انسانی حقوق کے ساتھ کمٹمنٹ نے کوئی اثر نہیں دکھایا۔ خود امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں بڑی تفصیل سے ان ڈرون حملوں کے ظالمانہ اور حتٰی کہ غیر موثر اور امریکی سلامتی کے لئے خطرناک ہونے کے بارے میں شواہد بین الاقوامی میڈیا کے سامنے پیش کئے ہیں جن کے مطابق ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والوں کی بھاری اکثریت معصوم لوگوں کی ہوتی ہے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ثانیاً اس رپورٹ کا یہ کہنا ہے کہ ان ڈرون کے اُڑتے رہنے کی وجہ سے مختلف علاقوں میں عوام کے ہاں ایک مستقل خوف و ہراس قائم رہتا ہے جس کی وجہ سے ان کی روزمرہ زندگی ڈر اور وحشت سے عبارت ہو چکی ہے بلکہ جنازوں تک کو ٹارگٹ کئے جانے سے لوگوں کی مذہبی رسومات کو بھی ادا کرنا مشکل تر بنا دیا گیا ہے۔ ثالثاً یہ کہ ڈرون حملوں کی وجہ سے امریکہ کی سلامتی بہتر ہونے کے بجائے مزید خطرات کا شکار ہو چکی ہے کیونکہ ان متاثرہ علاقوں میں لوگ امریکہ سے نفرت کی وجہ سے امریکہ کے دشمن بن رہے ہیں اور گروہوں کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ ایک سٹڈی کے مطابق 74 فیصد پاکستانی امریکہ کو اپنا دشمن گردانتے ہیں اور اربعاً یہ کہ طاقت کے بے دریغ استعمال نے قانون کی بالادستی کے نظرئیے کو سخت ٹھیس پہنچائی ہے اور عام لوگ بھی اب طاقت ہی کو ہر حال میں حاصل کرنے کے خطرناک رجحان میں مشغول ہو گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس ڈرون کی صورتحال میں پاکستانی حکومت کی پالیسی پر بھی سوال اٹھائے جاتے ہیں اور وال سٹریٹ جرنل کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوج بھی خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے اور ڈرون حملوں سے پہلے امریکی فوج کی طرف سے ایک فیکس پیغام کو ہی کافی سمجھ لیتی ہے اور اپنی خاموش رضامندی بھی ظاہر کر دیتی ہے۔ مگر جناب پروفیسر اوباما صاحب آپ بھی تو صرف تقریریں ہی کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی عملداری صرف امریکہ میں ہی نہیں ساری دنیا میں ہونی چاہئے، اصولوں پر غیر جانبدارانہ عملدرآمد ہونا چاہئے خواہ معاملہ کسی مسلم ملک کا ہو یا غیر مسلم کا۔ خون چاہے یہودی کا بہے یا فلسطینی یا کشمیری کا۔ جب تک یہ نہیں ہو گا آپکی پالیسیوں کا تضاد امنِ عالم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہے گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38