پچھلے دنوں انقلاب کی بہت باتیں سننے میں آئیں ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انقلاب کی باتیں کرنے والے اور ان کا انقلاب نہ جانے کہاں کھوگیالیکن سچ اور حق پر قائم رہنے والے جب کسی انقلاب کا بیڑا اٹھالیتے ہیںتو حالات کے جبر اور حوادث کی پرواہ کئے بغیر اپنے مقصد کی جانب سفر جاری رکھتے ہیں۔ انقلاب کا یہ سفر کبھی دھیما کبھی تیز حالات کے پیش نظر جاری رہتا ہے اور بالآخر اپنی منزل پالیتا ہے ۔ اس بات کا تجزیہ کرنے اور اس کو بیان کرنے والوںکے اپنے اپنے زاویے ہیں اور انکا اپنا اپنا نقطہ نظرہوتا ہے ۔ آئے دن ہمارے کالم نگار اور دانشور حضرات اس موضوع پر قلم آرائی کرتے رہتے ہیں ۔ماضی قرےب اےسے کئی مضامےن پڑھنے کا موقہ ملا جن مےں تاریخی حوالوں کے ذریعہ یہ بات قارئین کرام کے ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ملک میں ماضی میں جو تبدیلیاں آئیں یا لانے کی کوششیں ہوئیں یا مستقبل میں اگر کوئی تبدیلی آسکتی ہے اس میں صرف پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ن) یا عمران خان کا ہی کردار ہے ۔ ماضی میں تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے مختلف کالم نگاروں نے بھٹو صاحب کے کردار کو احسن طریقہ سے بیان کیا اور اس سے موازنہ کرتے ہوئے یہ تحریر کیا کہ جس طرح بھٹو صاحب نے اسلامی سوشل ازم کا نعرہ لگایا تھا اسی طرح اب عمران خان کا رفاہی اسلام کا نعرہ بھی کامیاب ہوسکتا ہے اور نواز شریف صاحب کی مدحہ سرائی کرتے ہوئے یہ بھی تحریر کیا کہ پنجاب میں بالخصوص اور باقی ملک میںبالعموم نواز شریف، پیپلزپارٹی کو پچھاڑ کر نئے صنعتی اور تاجر سماج کے نمائندے کے طور پر ابھر چکے ہیں ۔
اےسے تمام دانشوروںسے ادب کے ساتھ گزارش ہے کہ چونکہ آپ اخبار کے ایک کالم نگار ہیں اگر آپ زمینی حقائق کی طرف توجہ د ے لیں تو آپ کی مضمون نویسی میں چار چاند لگ سکتے ہیں ۔ اگر آپ اپنی سوچ اور بصیرت کا دائرہ تھوڑا سا بڑھا لیں تو آپ کو پنجاب کے کھیتوں ، کھلیانوں میں ، شہروں اور دیہاتوںمیں ایک اور عنصر نظر آئے گا جو وقتی یا جزوی تبدیلیوں کی خبر نہیں دے رہا ہے بلکہ آنے والے وقت کیلئے ایسی تبدیلیوںکا پیش خیمہ ثابت ہوگا اور ہورہا ہے جس کے ذریعہ پورے پاکستان میں معاشرتی اور ذہنی بالیدگی کوفروغ مل رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسے خاموش انقلاب کی طرف پاکستانی قوم کو لے جارہا ہے جہاںدلفریب نعروں کے بجائے عملی تبدیلیاںناگزیر ہوجائیں گی اورایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا جس کے ذریعہ نہ صرف ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا بلکہ اس ملک میں رہنے والے یہاں رہنے پر فخر محسوس کریں گے اور باہر کی دنیا سے آنے والے بھی اسی طرح فخر محسوس کریں گے ۔یہ سست اور خاموش انقلاب اس امر کی مصداق ہے کہ Slow and steady wins the race یعنی سست لیکن مستقل مزاجی سے کام کرنے والے منزل تک پہنچتے ہیںاور یہ خاموش انقلاب کی نوید سنانے والے وہ محنتی اور غریب کارکنان ہیں جن کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ، عرف عام میں ایم کیوایم سے ہے ۔ اکثر کالم نگار اپنے آپ کو پنجاب تک محدود رکھتے ہوئے اپنے خیالات کو مضمون کی زینت بناتے ہےں اسی لئے راقم نے بھی صرف پنجاب کے شہروںاور دیہاتوں کا ذکر کیا ہے جہاں پر بڑی جانفشانی سے متحدہ قومی موومنٹ کے چاہنے والے شب وروز ایم کیوایم کی فلاسفی کے پرچار میں لگے ہوئے ہیں جس کے مطابق اس ملک کو دوفیصد مراعات یافتہ طبقہ جن میں بڑے بڑے جاگیردار، وڈیرے ، خوانین ، سردار اور دیگر اشرافیہ شامل ہیں ۔ جس میں اس بدقسمت ملک کی اسٹیبلشمنٹ بھی شامل ہے ، سے نجات دلاکر غریب ومتوسط طبقہ کے پڑھے لکھے ، ایماندار لوگوں کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے راغب کرنا ہے ۔
یہ انقلاب فی الحال سطح آب پر نظرنہیں آرہا ہے بلکہ سمندر کی گہرائیوں میں پنپ رہا ہے ۔ اس بات کو سمجھانے اور واضح کرنے کیلئے صرف ایک واقعہ کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔ ملک کی تاریخ میں 8، اگست 1986ءکو ایک ایسا انہونا واقعہ رونما ہوا کہ جب ایم کیوایم نے پہلا عوامی جلسہ کراچی کے نشترپارک میں طوفانی بارشوں کے باوجود منعقد کیا جس میں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر موسلا دہار بارش میں ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے خطاب کو بڑے سکون سے سن رہا تھااور جلسہ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اس ملک کی خفیہ ایجنسیا ں اور اسٹیبلشمنٹ انگشت بدنداں رہ گئیں کہ یہ لوگ کہاں سے آگئے ۔ یہ انسان ہیں یا جن ۔ کراچی کی کن بستیوں سے نکل کر آئے ہیں ۔ کسی کو کچھ پتہ نہ تھا ۔ درحقیقت اس تحریک کے چلانے والوں کی محنت اور لگن تھی جو اس دن رنگ لائی اور یہ جلسہ آنے والے ایسے وقت کیلئے نقطہ آغاز ثابت ہوا جس کی وجہ سے آج سندھ کی صوبائی اسمبلی میں ایم کیوایم کے 51ارکان ، قومی اسمبلی میں25، سینیٹ میں 6ارکان ، آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں 2 اور گلگت بلتستان اسمبلی میں ایک رکن منتخب ہوئے اور عوامی خدمت میں شب و روز لگے ہوئے ہیں۔ان تمام عوامی نمائندوںکا تعلق غریب اور متوسط طبقہ سے ہے جوکہ اپنی ذاتی حیثیت میں ایک کونسلر کا انتخاب تک نہیں لڑسکتے تھے ۔انقلاب کی یہ زندہ مثال بہت پرانی نہیں ہے ۔ اسی طرح گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں جس طرح ایم کیوایم کے نمائندوں نے کراچی ، حیدرآباد ،نواب شاہ ،مےر پور خاص اور سکھر میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ان شہروں کو گل وگلزار بنادیا کیا آپ اسے انقلاب نہیں کہیں گے ؟
آج پنجاب میں ایم کیوایم کی فلاسفی کی وجہ سے جو خاموش انقلاب پنپ رہا ہے اسے اب کوئی طاقت روک نہیں سکتی انشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب پورے ملک میں غریب اورمتوسط طبقہ کے پڑھے لکھے ، ایماندار لوگوںکے ہاتھوں میں اس ملک کی باگ ڈورہوگی اور سب کو انصاف فراہم ہوگا اور لوگ چین سے اس ملک میں زندگی بسر کرسکیں گے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024