5نومبر 2024ءکو امریکی شہری اپنے لئے صدر کے چناو¿ میں حصہ لیں گے۔امریکی صدر کا یہ انتخاب ”'اِن ڈائریکٹ “ ہوتاہے جس میں امریکی شہری ”الیکٹورل کالج“ کیلئے ووٹ کاسٹ کرتے ہیں جو کہ صدارتی الیکٹرز پر مشتمل ہوتا ہے۔اس وقت کل صدارتی الیکٹرز کی تعداد538 ہے جس میں سادہ اکثریت کیلئے 270 یا اس سے زیادہ کی تعداد درکار ہوتی ہے۔اگر صدارتی امیدوار سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے تو اس صورت میں امریکہ کا ایوان نمائندگان ووٹ کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے۔اسی طرح نائب صدر کا فیصلہ امریکی سینٹ کے ارکان بذریعہ ووٹ کرتے ہیں۔
صدارتی الیکشن کے علاوہ امریکہ میں قومی‘ ریاستی اور مقامی سطح پر بھی الیکشن ہورہے ہیں۔ایوان نمائندگان کی 435 سیٹوں پر الیکشن ہوگا جو کہ ہر دو سال بعد منعقد ہوتا ہے۔اسی طرح امریکی مقننہ کے دوسرے ایوان سینٹ کی 100 میں سے34 سیٹوں پر الیکشن ہوگا۔
امریکی صدر کے انتخاب کو عالمی سیاست میں انتہائی اہم حیثیت حاصل ہے کیونکہ عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ امریکی صدر دنیا کی سیاست کو ڈرائیو کرتا ہے۔گویا امریکی صدر کو دنیائے سیاست میں گلوبل صدر تسلیم کیا جاتا ہے جو امریکی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عالمی سیاسی منظر نامے کا تعین کرتا ہے۔ حتی کہ کسی ملک کیخلاف جنگ مسلط کرنے یا نہ کرنے کا کلیدی اختیار بھی امریکی صدر کو حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ اختیار کانگرس سے اجازت لیکر استعمال کرتا ہے۔اسی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے عراق لیبیا اور افغانستان پر جنگ مسلط کی گئی۔ امریکی صدر امریکی افواج کا سپریم کمانڈر بھی ہوتا ہے گویا وہ دنیا کا طاقت ور ترین شخص ہوتا ہے۔ 5 نومبر کو منتخب ہونے کے بعد نیا امریکی صدر جب 20 جنوری کو حلف اٹھائے گا تو وہ کس عالمی منظر نامے کا سامنا کرے گا؟ اسکے سامنے ایک طرف یوکرائن جنگ کا چیلنج ہوگا جہاں روس شمالی کوریا کیساتھ ڈیفینس پیکٹ کر چکا ہے جسکے نتیجہ میں شمالی کوریا کے 12 ہزار سپاہی روس کی فرنٹ لائن میں رہ کر یوکرائن جنگ میں شریک ہورہے ہیں۔ امریکی صدر کیلئے دوسرا اہم چیلنج مشرق وسطی کی گھمبیر سیاسی صورتحال ہے۔جس میں اسرائیل ایران تصادم کے نتیجہ میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے بادل منڈلاتے نظر آرہے ہیں۔ کیا کملا ہیرس یا ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن میں صدارتی کا میابی سے مشرق وسطی کی سیاست میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ اس سوال کا جواب نفی میں ملتا ہے اور آج کی تلخ حقیقت بھی یہی ہے کہ نئے امریکی صدر کے منتخب ہونے کے بعد مشرق وسطی کی سیاست میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئیگی بلکہ اس خطے میں سیاست کے میدان میں مزید شدت آئیگی اور مزید تباہی کے مناظر دکھائی دینگے۔تبدیلی فقط اس حد تک ضرور نظر آئیگی کہ کملا ہیرس کے صدر منتخب ہونے کے بعد اسرائیل کی دہشت گردی کی منظوری کملا کی مسکراہٹ سے ملا کرے گی جبکہ ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کی صورت میں اسرائیل کو دہشت گردی کی منظوری ٹرمپ کی للکار کے ذریعہ ملے گی۔ دونوں امیدواران کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو اسرائیل کی دہشت گردی پر کسی ایک کا بھی مذمتی بیان نہیں ملے گا اور نہ ہی کسی نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم جنگ بند کر دیں گے جسکا ایک ہی مطلب ہے کہ مستقبل میں مشرق وسطی کے اندر مزید تباہی و بربادی کے مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ دوسری طرف عراق کی طرح ایران کو جنگ میں ٹریپ کرنے کا عمل بھی پوری شدومد کیساتھ جاری رہے گا تاکہ ایران غلطی کرے اور اسکے بعد ایران پر جنگ مسلط کر دی جائے۔ اس وقت 30 ہزار امریکی فوجی مڈل ایسٹ میں موجود ہیں جو موساد کے سلیپرز سیلز اور خفیہ ایجنٹس کیساتھ گہرےروابط قائم کی ہوئی ہیں۔
مشرق وسطی کی انتہائی پیچیدہ سیاست میں اگرچہ بنیادی کھلاڑی امریکہ, اسرائیل اور ایران ہے تاہم اس سیاسی منظر نامہ میں پاکستان اور اسکے کردار کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بالخصوص جب بھارت اسرائیل کیساتھ ملکر مشرق وسطی کی سیاست کا اہم پارٹنر بن چکا ہے۔ لبنان میں حزب الہ کی تمام اہم لیڈر شپ جو ”پیجردھماکے“ کی نذر ہوگئی ان پیجرز کی خریداری میں بھارتی ایجنٹس کا کلیدی کردار سامنے آچکا ہے۔ جسکے بعد باآسانی یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مشرق وسطی کے اندر ہونے والی لڑائی میں امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت ایک پیج پر ہیں اور نئے امریکی صدر کے منتخب ہونے کے بعد یہ تینوں کھلاڑی جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی کی سیاست میں مذید اہمیت اختیار کر جائیں گے۔اس عالمی منظر نامہ میں بھارت کے اہم سیاسی کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لے۔برازیل‘ ساوتھ افریقہ ‘ مصر ‘ متحدہ عرب امارات حتی کہ بھارت بھی اپنے لیے نئی منڈیاں تلاش کر چکا ہے۔ پاکستان کو بھی Bricks میں شمولیت کیساتھ اپنے لئے نئے مواقع تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم معاشی طور پر خود کفیل ہوں تبھی ہم کسی بھی عالمی سیاسی پریشر کا مقابلہ کر سکیں گے۔
پاکستان اپنے محل وقوع کے اعتبار سے انتہائی اہم ملک ہے جس کے پاس وسائل کی کمی نہیں بس ضرورت اس امر کی ہے کہ گلوبل وژن رکھنے والی قیادت میسر آجائے جو خلوص نیت سے تمام چیلنجز سے نبرد آزما ہوسکے اور ہر روز کے بدلتے عالمی منظر نامہ میں جرا¿ت و بہادری کیساتھ اپنا موقف بیان کر سکے۔