ہفتہ‘ 4 ؍ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 2؍ نومبر2019 ء
جرمنی: سب سے لمبا 37 ملی میٹر کا انسانی د ا نت: گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج
انچوں کی زبان میں یہ لمبائی 1.46 انچ ہے۔ یہ دانت ایک مریض کا ہے جو گزشتہ برس ڈاکٹر میکس نامی ڈینٹسٹ کے پاس منہ میں شدید درد تکلیف کی شکایت لے کر آیا تھا۔ درد کی وجہ دانت کی غیر معمولی لمبائی ہے۔ جسے صحیح و سالم نکال کر احتیاط سے ناپ لیا گیا۔ حُسن ، اعضا کی موزونیت کا نام ہے اگر آنکھیں آہو چشم ہوں ، بال ناگن کی طرح بل کھا رہے ہوں، ناک ستواں ہو اور بالخصوص موتیوں کی طرح چمکتے دانت ، یہ سب مل کر غضب ڈھاتے ہیں، شاعر نے کہا تھا…؎
بتا تیرے رخسار و گیسو کو دوں تشبیہ کیوں کر
نہ لالہ میں ہے، رنگ ایسا نہ سنبل میں ہے بو ایسی
اعضا کی موزونیت ہی ، قاتل حُسن‘‘ کو وجود میں لاتی ہے۔ دانتوں کے بارے میں بھی شاعروں نے بڑے خوبصورت شعر کہہ رکھے ہیں۔ اگر حوالے دینے لگیں تو بات لمبی ہو جائے گی محاورے بھی کافی وضع کئے گئے ہیں مثلاً ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور، عموماً یہ محاورہ منافقت اور دوغلا پن بے نقاب کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس محاورے کا سب سے بڑا مبلغ ہندو فلاسفر چانکیہ تھا۔ جس کی تصنیف ارتھ شاستر ہندو سیاست کی وید ہے اور آج اگر اس کا اصلی پیروکار دیکھنا ہو تو مودی کو دیکھ لیجئے۔ اپنی اسی صفت کی بدولت چائے بیچتا بیچتا بھارت کا پردھان منتری بن بیٹھا۔ اگرچہ اس کے دانت گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں تو جگہ نہیں پا سکتے۔ لیکن اس سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کا کاٹا (دانتوں سے) پانی نہیں مانگتا۔ دانتوں کے بارے میں ، محاوروں سے اُردو ادب کا د امن مالا مال ہے۔ ایک محاورہ تو شروع میں پیش کیا جا چکا ہے۔ دو ایک مزید دیکھیں، دانت تھے تو چنے نہ پائے چنے ملے تو دانت گنوائے، (جوانی غربت میں گزری، بڑھاپے میں حالات سدھرے توکیا فائدہ؟) دانٹ ٹوٹے، کُھر گِھسے اور پیٹھ بوجھ نہ لے۔ ایسے بوڑھے بیل کو کون باندھ بُھس دے (بوڑھے سے کسی فائدے کی توقع نہیں ہوتی، اس لیے اسے کوئی منہ نہیں لگاتا) محاورے میں دانت کا ایک اور استعمال دیکھئے، گھر میں کچھ نہ رہے، سب کچھ جاتا رہے تو کہتے ہیں ’’دانت کریدنے کو تنکا نہ بچنا‘‘۔ اُردو میں ایسے محاورے سینکڑوں ہیں۔ جن میں دانت کو بڑی خوبصورتی سے فِٹ کیا گیا ہے لیکن…!
٭٭٭٭٭
بھارت: انڈوں کا لالچ، بیوی شوہر کو چھوڑ کر آشنا کے سا تھ بھاگ گئی
اپنی نوعیت کا یہ دلچسپ واقعہ ریاست اُتر پردیش (یوپی) کے ضلع گورکھپور میں پیش آیا۔ بیوی نے انڈے کھانے کی ضد کی۔ شوہر نے غربت کا عذر کیا دونوں میاں بیوی کی اس تکرار سے ایک گھاگ نے اس طرح فائدہ اُٹھایا، جیسے نقب زن اہل خانہ کو غافل دیکھ کر، گھر کا صفایا کر جاتے ہیں۔ وہ کوئی اور نہیں، خاتون کے خاوند کا منہ بولا بھائی بنا ہوا تھا۔ شوہر مزدور ہے، وہ بے چارا دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری کر رہا ہے۔ انڈوں کی شوقین بیوی کا مطالبہ کیسے پورا کر سکتا تھا۔ شوہر کام پر گیا تو اُس کے دوست نے اُسے چکمہ دیا کہ ایک انڈہ کیا ، میں تمہیں انڈوں کی دکان کھول دوں گا۔ روزانہ اتنے انڈے سپلائی کروں گا کہ تمہیں روٹی کھانے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی، چنانچہ وہ اس کی چکنی چُپڑی باتوں میں آ گئی ، اور دونوں بھاگ کھڑے ہوئے، لیکن چار ماہ دھکے کھانے کے بعد خودبخود لوٹ آئی، ظاہر ہے کہ جو خود لنگوٹی میں پھاگ کھیل رہا تھا اور جو اُس کے شوہر سے بھی زیادہ کنگال تھا۔ وہ اُس بے وقوف عورت پر انڈوں کی بارش کیسے کر سکتا تھا۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ ’’چسکورے‘‘ چسکا پورا کرنے کے لئے بے غیرتی کی ہر حد پار کر جاتے ہیں۔ قناعت کا شمار اعلیٰ بشری اوصاف میں ہوتا ہے۔ قانع بھوکا رہ لے گا۔ لیکن کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا تو کجا وہ یہ تک ظاہر نہیں ہونے دیتا کہ وہ بھوکا ہے۔ پیٹ کی ضرورت روٹی ہے۔ اس کے بعد‘ جو کچھ بھی ہے‘ وہ اضافی ہے مل جائے تو ٹھیک نہ ملے تو بھی خیر‘ انڈے کی خاطر عمربھر کی بدنامی مول لے لی،
٭٭٭٭
100سالہ ورثے کی حفاظت ‘ سعودی خاندان نے گھر کو میوزیم بنا ڈالا
جب تک تیل نہیں نکلا تھا اور دولت کی ریل پیل نہیں ہوئی تھی‘ جزیرہ نمائے عرب کا رہن سہن بدویانہ تھا۔ اگر کسی نے ڈھنگ کا کچا کوٹھرا بنا لیا۔ تو سے رشک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ عرب جہاں کہیں بھی تھے۔ قبیلوں کی شکل میں رہتے تھے۔ مگر غربت کے باوجود خوددار، غیور‘ اور مہمان نواز تھے، کھجوریں اور اونٹنیوں کا دودھ غذا تھی۔ لیکن اس کے باوجود بقول علامہ اقبال…؎
غربت میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے نہ تھا بخشش کا یارا
ان لوگوں کا اصل ورثہ، ان کی معیشت نہیں اوصاف تھے‘ پیسہ آتے ہی عرب معاشروں میں بھی وہ ساری خرابیاں در آئی ہیں‘ جو سرمایہ دار معاشروں کی پہچان بن گئی ہیں۔ قبل ازاسلام عربوں کی معاشرت جاننا ہو تو مسدس حالی کا مطالعہ کریں‘ مگر پھر وہ اسلام کی برکت سے دُنیا کے رہبر و امام بن گئے۔ اپنے قومی ورثے کی حفاظت اعلیٰ ذوقی اور بیدار مغزی کی علامت ہے۔ 20ویں صدی کے ربع اول میں جب آل سعود کے سربراہ عبدالعزیز السعود نے ریاض فتح کیا اور اسے اپنا دارالحکومت بنایا تو یہاں شریف مکہ کے گورنر جس مکان میں رہتے تھے، اُسے کچے گارے سے بنایا گیا تھا۔ ویسے ذرا کشادہ تھا۔ دفاتر بھی اسی سب میں تھے۔ خود جب عبدالعزیز ال سعودی عرب کے بادشاہ بنے اور اپنے آپ کو ملک (بادشاہ) کہلانا شروع کیا تو کئی برس تک انہی کچے مکانوں میں رہتے رہے۔ اگر کوئی سو سال قبل وفات پانے والا دوبارہ زندہ ہو کر صرف ریاض کو ہی دیکھ لے تو مارے حیرت کے اس کی روح پرواز کر جائے۔ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کا یہ عالم ہے کہ انہیں چاروں طرف سے فلک بوس ہوٹلوں میں پلازوں نے گھیرے میں لے لیا ہے۔ وقت کے کھیل ہیں…ع
آں قدح بشکست وآں ساقی نماند
حرمین الشریفین کے شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو اگر اپنی اصلی شکل میں برقرار رکھا جاتا تو یہ منظر کچھ اور ہی ہوتا۔ بے شک حرمین الشریفین کی توسیع اور سڑکوں کی تعمیر بڑی ضروری ہو گئی تھی کہ زمانے کا تقاضا تھا لیکن مکہ اور مدینہ کے قدیم شہروں کو جتنا ہو سکتا اصلی حالت میں محفوظ کر لیا جاتا تو مسلمانوں اور سعودی حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہوتا، خصوصاً جنت البقیع کو ، جہاں آسمانِ اسلام کے شمس وقمر محوِ استراحت ہیں۔ مگر آج اس تاریخی اور بلند شان قبرستان کا نام و نشان باقی نہیں رہا۔
٭٭٭٭