باغبانپورہ کالج تاریخی روایات کا حامل رہا ہے۔ کشمیریوں پر مظالم ہوں یا بلیک ڈے کے موقع پر کشمیریوں پر ہونے والے ظلم پر احتجاج طالبات نے اپنی تقریروں اور واک کے ذریعہ جہاں بھرپور ردعمل کا ا ظہار کیا وہاں اساتذہ نے سیمینارز اور لیکچرز میں واضح کہا کہ کشمیر کے مسئلہ کا واحد حل حقِ خود ارادیت ہے۔ اگر ہندو تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو وید کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ سوامی دیانند کی تعلیمات کے مطابق دھرم کے مخالفوں کو غائب کرو ا دو یا زندہ جلا دو، جس طرح بلی چوہے کو تڑپا تڑپا کر مارتی ہے۔ اُن کو تڑپا تڑپا کر مارو۔ جائز اور ناجائز طریقے سے ہلاک کرو۔ ان کو پائوں کے نیچے کچل دو اور ان پر رحم نہ کرو۔ 27 اکتوبر کو بلیک ڈے کے انقعاد کا مقصد بھی یہی تھا کہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو اقوام عالم پر آشکارا کیا جائے۔ گورنمنٹ کالج باغبانپورہ میں سائنس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ایک نمائش کا بھی اہتمام ہوا۔ ڈاکٹر آمنہ، روبینہ شاہین اور مسز محفوظ کی طرف سے اس نمائش میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس فن پاروں کو رکھا گیا۔ طالبات نے جانفشانی اور محنت سے ان فن پاروں کو تیار کیا جو ان کی کارکردگی اور محنت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی محمد زاہد میاں ڈپٹی ڈائریکٹر کالجز تھے ، جنہوں نے ان ماڈلز کو د یکھا جو اساتذہ کی نگرانی میں طالبات نے تیار کئے تھے۔ انہوں نے طالبات کی صلاحیتوں کی تعریف کی اور کہا کہ بہترین اساتذہ آگے چل کر بہترین نسلیں اور بہترین معمارِ پاکستان پیدا کرتے ہیں۔ بعدازاں ڈائریکٹر کالجز نے نے کالج کے تمام شعبہ جات کا دورہ کیا۔ شعبہ تاریخ کی کشمیر ڈے اور اس سلسلہ میں ہونے والی واک اور تقریبات کے انعقاد پر شعبہ تاریخ کی کارکردگی کو سراہا اور راقمہ کی حوصلہ افزائی کی۔ شعبہ تاریخ کے دیگر اساتذہ طیبہ ربانی، شازیہ لطیف، شبانہ یاسین اور سعدیہ جبیں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ شعبہ تاریخ نے محنت‘ لگن اور بہترین کارکردگی سے منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ڈیلی ڈائریکٹر کالجز میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ اساتذہ میں اپنے خطابات کے ذریعے محنت اور خوب سے خوب تر کے محرکات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ قومیں نظریات پر بنتی ہیں جن قوموں کے نظریات مضبوط ہوتے ہیں۔ ان میں ہر قسم کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے محرکات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہاں کی نوجوان نسل کے اندر وہ تڑپ پیدا کی جائے جو ان کو منزل کا راستہ دکھائے گورنمنٹ کالج باغبانپورہ اپنی کارکردگی اور صلاحیتوں کو ’’روشنی کے مینار‘‘ تعلیمی سرکلر کے ذریعہ اُجاگر کرتا رہتا ہے اور اس بات کا کریڈٹ کالج کی پرنسپل اور ان اساتذہ کو جاتا ہے جو علم دوستی کے جذبے سے سرشار ہو کر طالبات میں نیا عزم نئی روشنی اور نئے محرکات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ زاہد میاں بھی اپنے خطابات میں اسی جذبے پر زور دیتے ہیں کالجز میں بھرپور علمی اور تعمیری سرگرمیاں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کیونکہ منزل تک پہنچنے کے لئے بامقصد عمل ضروری ہے۔ ترقی یافتہ قوموں کی ترقی کا راز یہ ہے کہ ان کے ہاں جدید تصورات اور تعلیمی شعبہ جات میں اصلاحات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ کیونکہ نوجوان نسل جب جدید تقاضوں اور فکری ہم آہنگی سے سرشار ہو کر عملی میدان میں بھرپور صلاحیت کا مظاہرہ کرتی ہے اور یہی تعمیری جذبہ درحقیقت متوازن اور مستحکم ریاست اور معاشرے کے خواب کو پورا کرتا ہے اور بلا شبہ ایک نئے روشنی کے سفر میں محمد زاہد میاں کا کردار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024