تعلیمی ادارے محض ڈگریوں کی فیکٹریاں نہیں ہوتے بلکہ یہ معاشرے کی تہذیبی اور فکری اقدار کی تشکیل کا ذریعہ بھی ہوتے ہیں۔ یو ای ٹی (یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی) کے تازہ مشاعرے نے اس حقیقت کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے کہ نوجوان نسل کی ادبی تربیت اور سنجیدہ شاعری سے دلچسپی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ مشاعرہ نہ صرف طلباء و طالبات کی ذوقِ سلیم کی عکاسی تھا، بلکہ اس نے ان غلط فہمیوں کو بھی توڑ دیا جو عرصے سے ادبی حلقوں میں پھیلائی جا رہی تھیں۔
کچھ عرصے سے یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا کہ آج کے نوجوان صرف سستے لطیفوں، سطحی شاعری، یا سوشل میڈیا کے کمرشل اور تہذیب و تمدن دشمن "ٹرینڈنگ" شاعروں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ کہ یہ دوچار شاعر ہی حاضرین کو کھینچتے ہیں۔ یو ای ٹی کے مشاعرے نے ثابت کر دیا کہ یہ محض ایک بے بنیاد دعویٰ تھا۔ وہاں موجود نوجوانوں کی کثیر تعداد نے جس شوق اور توجہ سے سنجیدہ شاعری سنی، وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارے باشعور اور تعلیم یافتہ طبقے کی اکثریت غیرمعیاری ادب سے بیزار ہے۔ یہ نوجوان "وائرل" ہونے والے شاعروں کی بجائے فکر و فن سے آراستہ کلام کو ترجیح دیتے ہیں۔
یونیورسٹیوں میں حقیقی اور سنجیدہ مشاعرے کی اس بازیافت اور پھر مشاعرے کی کامیابی کا سہرا سب سے پہلے یو ای ٹی کے وائس چانسلر، محترم شاہد منیر صاحب کے سر جاتا ہے، جنہوں نے تعلیمی اداروں میں ادبی روایات کی بحالی کو اپنی ترجیح بنایا۔ جناب شاہد منیر صرف یونیورسٹی کے سربراہ ہی نہیں بلکہ ایک روشن خیال تعلیمی رہنما ہیں، جن کی خدمات جھنگ سے لے کر میانوالی اور پھر پورے پنجاب تک پھیلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے ہر شہر میں علم کے چراغ روشن کیے ہیں اور اب بطور وی سی یو ای ٹی روزانہ کی بنیاد پر تعمیری اور راست اقدامات اٹھا کے ادارے کو دنیا کی بہترین یونیورسٹی کی ریٹنگ میں اوپرلے کر آئے ہیں۔ شاہد منیر نے قطع نظر ماضی قریب ، اس سال کے مشاعرے کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ ادب و فنون کو فروغ دینا بھی تعلیمی اداروں کا فرض ہے۔ اسی طرح وہ ایک جوہرشناس کپتان بھی ہیں۔ وہ جہاں بھی گئے ہیں انہوں وہاں لائق ، محنتی اور نظریاتی احباب کو عزت بخشی ہے اور انہیں اپنی ٹیم کا حصہ بنا کے ان کی صلاحیتوں سے اداروں کو مستفید کیا ہے۔ اسی یونیورسٹی کے پرانے خدمت گار ، بے مثال ، شفاف اور دلیر صحافی ، دانشور اور ملک وملت کی سماجی و نظریاتی سرحدوں کے محافظ رانا تنویر قاسم ، جناب شاہد منیر کا حسن انتخاب اور ان کی ٹیم کا کلیدی حصہ ہیں۔ رانا تنویر قاسم کی بے داغ شخصیت اور مثالی تعمیری کردار کا پورا لاہور گواہ ہے۔
یو ای ٹی کے مشاعرے کی کامیابی میں ڈاکٹر رانا تنویر قاسم کے سماجی شعور ، ملی بصیرت اور انتھک محنت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی مخلصانہ کوششوں نے اس مشاعرے کو ایک یادگار واقعہ بنا دیا۔ مشاعرے میں ممتاز ماہر تعلیم ، دبنگ کالم نگار اور صاحب علم و دانش شخصیت کالم نگار نعیم مسعود کی شرکت نے تقریب کی توقیر میں بلاشبہ اضافہ کیا۔ جس طرح جناب شاہد منیر نے یونیورسٹی آف جھنگ کو سینچا اور اسے ایک پودے سے تناور بلکہ ثمر آور درخت بنایا ، سرزمین جھنگ ہمیشہ ان کی ممنون رہے گی۔
پچھلے کچھ سالوں سے دنیا کی تہذیب دشمن قوتوں اور کارپوریشنوں نے جس بے دردی سے می ٹو ، عورت مارچ ، ادبی فیسٹیول اور یونیورسٹیوں میں اخلاق باختہ مشاعروں کا حملہ کر رکھا ہے ، یہ جتنا الارمنگ ہے اتنا ہی نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
لیکن صد شکر کہ اس بار جس طرح یو ای ٹی کے مشاعرے کو سستی جذباتیت اور بیحیا?ی کو شاعری بنا کر پیش کرنے والے اور شعر کی چوری کو اصول بنا کر سرکاری اثر و رسوخ سے مشاعروں پر قابض ہونے والے جتھوں کے قبضے سے اس سالانہ مشاعرے کو واگزار کرایا گیا، یہ دوسری یونیورسٹیوں کے لیے قابل تقلید عمل ہے۔ یہ مشاعرہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو سکتا ہے، جو آنے والے وقتوں میں دیگر تعلیمی اداروں کے لیے بھی مثال بنے گا۔ ہمیں امید ہے کہ اس طرح کے ادبی و ثقافتی پروگراموں کی بدولت نوجوان نسل میں معیاری ادب کا ذوق پروان چڑھے گا اور سوشل میڈیا کی سطحیت کے مقابلے میں گہرائی اور معنویت کی طرف رجحان بڑھے گا۔
شاہد منیر صاحب اور ان کی ٹیم نے یو ای ٹی کا یہ مشاعرہ منعقد کر کے ثابت کر دیا ہے کہ تعلیم اور ادب ایک دوسرے کے دشمن نہیں، بلکہ لازم و ملزوم ہیں۔ آنے والے وقتوں میں ایسے مشاعروں کو نہ صرف جاری رکھنا چاہیے، بلکہ ان کے دائرے کو مزید وسیع کرنا چاہیے، تاکہ ہمارے نوجوانوں کی ادبی صلاحیتیں بھی نکھر سکیں اور مشاعروں سے نوجوان نسل کی فکری و سماجی تربیت بھی ہوسکے۔
ادبی روایت کی بحالی
May 02, 2025