پہل گام کی "پہیلی" اور چونڈہ محاذ کی "کاری ضرب"۔۔۔!

May 02, 2025

امجد عثمانی

نیوز روم/امجد عثمانی  

شہدائے کرام کی بستی چونڈہ میں صحافت و ادب کا "احاطہ" کرتی یہ "دل نشین نشست"استاد گرامی جناب پروفیسر محبوب عارف کے "وسیلے"سے سجی اور وہی صاحب صدر بھی تھے۔۔۔گذشتہ ہفتے میں نے انہیں اطلاع دی کہ میرا اپنی پہلی اور دوسری مادر علمی گورنمنٹ پرائمری سکول منڈیالہ اور گورنمنٹ مڈل سکول گڈگور کی "زیارت" کو دل مچل رہا۔۔۔واپسی پر آپ کی "دست بوسی" کو بھی جی چاہ رہا ہے تو انہوں نے بڑے چائو سے چونڈہ پریس کلب میں خلوص سے مزین مجلس ہی سجالی۔۔۔چونڈہ پریس کلب کے قابل صد احترام ارکان جناب شیخ وثیق الرحمان ،زبیر احمد صدیقی،ذوالفقار احمد باجوہ،خرم شہزاد،شہباز احمد سندھو،محمد سلیم چوہدری ذکاء￿  اللہ باجوہ،مرزا نوید احمداور  رانا محمد طاہر نے بھی دیدہ و دل" فراش راہ" کردیے۔۔۔مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی مادر علمی مرے کالج سیالکوٹ کے وائس پرنسپل جناب پروفیسر محبوب عارف گورنمنٹ کالج شکرگڑھ میں میرے انگریزی کے استاد تھے۔۔۔۔پروفیسر صاحب ان دنوں مرے کالج میں شعبہ انگریزی کے سربراہ اور پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔۔۔۔پروفیسر صاحب اور خاکسار میں دو تین باتیں مشترک ہیں۔۔۔ایک تو ہم بنیادی طور پر ایک ہی علاقے یعنی تحصیل پسرور کے باسی ہیں۔۔۔۔دوسرے ہمارے ننھیال شکرگڑھ کے ایک ہی گائوں میں ہیں۔۔۔۔یعنی ہمارے دونوں کے اباجی ایک ہی گائوں میں بیاہے گئے  اور  مشرقی روایت کے تناظر میں  وہ ایک ہی گائوں کے داماد ہونے کے ناطے "ہم زلف"بھی بنتے ہیں۔۔۔محبوب عارف صاحب کا طرہ امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ انگریزی زبان و ادب کے استاد ہونے کے باوجود اسلامی ادب کے خوشہ چیں بھی ہیں۔۔۔۔یہ فیضان نظر بھی ہے اور مکتب کی کرامت بھی کہ ایک کلین شیوڈ انگریزی پروفیسر اسلام کے یوں قصیدے کہتا کہ رشک آتا ہے۔۔۔۔۔پروفیسر صاحب عقیدت میں گندھے ہوئے اسلام پسند آدمی ہیں۔۔۔جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے نام پر گردن جھکا دیتے۔۔۔پلکیں بچھا دیتے اور چپکے سے اشک بار ہو جاتے ہیں۔۔۔شکرگڑھ کالج میں انگریزی کے استاد جناب پروفیسر عابد کھوکھر یاد آئے۔۔۔اذان کہتے امامت کراتے اور درس دیتے ہیں۔۔۔۔یہ عطائے رب جلیل ہے۔۔۔۔وہ جسے چاہے خلیل بنالے۔۔۔۔شہدائے چونڈہ پبلک لائبریری میں سجی اس مجلس میں برادرم عمران علی نومی اور ملک قدیر بھی میرے ساتھ تھے۔۔۔۔دو گھنٹے پر محیط اس نشست میں صحافت کے "کمال و زوال"پر خوب صورت مکالمہ ہوا۔۔۔کچھ دل کی باتیں ہوئیں۔۔۔اپنی مٹی اور اپنے وطن کا تذکرہ بھی ہوا۔۔۔میں نے برملا کہا کہ مجھے لاہور پریس کلب کے بعد پہلی بار کسی پریس کلب میں آنا اچھا لگا اور وہ ہے چونڈہ پریس کلب۔۔۔اس کی ایک وجہ تو استاد گرامی قدر کی دعوت ہے اور دوسرا شہدائے کرام کی بستی چونڈہ کا تقدس۔۔۔زہے نصیب۔۔۔۔!!!میں نے یہ بھی کہا کہ چونڈہ محاذ ایک یونیورسل ٹرتھ ہے۔۔۔۔۔پاک فوج کی گواہی دیتی عالم گیر سچائی۔۔۔۔اور اس سچائی نے چونڈہ کو بھی "امر" کر دیا۔۔چونڈہ کی صحافت بھی "برانڈ"بن سکتی ہے۔۔۔۔شہدائے چونڈہ پبلک لائبریری کے متصل شہدائے کرام کا قبرستان بھی ہے اور یادگار شہدا کا بھی اپنا سحر ہے۔۔۔شہدائے کرام کے پڑوس میں بیٹھے میں 65کی جنگ کے ایمان افروز واقعات میں کھو گیا۔۔۔۔اتنا کھو گیا کہ اپنے بچپن میں چلا گیا۔۔۔۔بھارتی ٹینکوں کا قبرستان کہلانے جانے والے چونڈہ محاذ پر 65 کی جنگ کی ایسی ایسی داستانیں بکھری پڑی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔۔۔۔کچھ کہانیاں تو امی ابا سنایا کرتے تھے۔۔۔۔47میں ہندوستان سے ہجرت کرنے والے والدین 65کی جنگ کا آنکھوں دیکھا حال بڑے فخر سے سناتے کہ صبح سویرے بھارتی ٹینک گائوں کے باہر آکھڑے ہوئے اور ہم سمجھے یہ پاکستان کے ٹینک ہیں۔۔۔۔پھر پاک فضائیہ نے بھارتی فوج کے چھکے چھڑا دیے۔۔۔۔ہمارے بڑوں نے 65کے بعد 71 کی جنگ کا بھی دکھ بھی جھیلا۔۔۔۔جنگ کا کتنا نفسیاتی دبائو ہوتا ہے اس کا اندازہ ہجرتوں کے ڈسے والد گرامی، جنہیں آخری عمر میں بینائی کا مسئلہ درپیش تھا،کے ایک جملے سے لگایا جا سکتا ہے۔۔۔۔ایک دہائی پہلے  لاہور میں گھر لیا تو ایک دن پوچھنے لگے کہ یار کتنے کمرے ہیں۔۔۔میں نے کہا کہ کافی زیادہ ہیں۔۔۔کہنے لگے اتنے تو ہیں کہ اگر جنگ لگ جائے تو گائوں والے  تمام عزیز واقارب سر چھپا لیں ؟؟؟میں نے ہاں میں جواب دیا تو خوشی سے جھوم اٹھے۔۔۔کبھی ہمارے لوگ ایسے ہی ہمدرد ہوتے تھے۔۔۔۔چونڈہ محاذ پاکستان کی عسکری تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔۔۔۔ وہ دھرتی ہے جسے پاک فوج کے جوانوں نے اپنے لہو سے سینچا۔۔۔تبھی یہ وفائیں بکھیرتی ہے۔۔۔تاریخ دان ستمبر 1965 کی چونڈہ  محاذ پر پاک بھارت جنگ کو دوسری جنگ عظیم  کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ قرار دیتے ہیں۔۔۔۔طاقت کے نشے میں چْور بھارت نے600 ٹینکوں اور ایک لاکھ فوج کے ساتھ سیالکوٹ میں چارواہ،باجرہ گڑھی اورنخنال کے مقام پر حملہ کردیا۔۔۔۔پھر چشم فلک نے دیکھا کہ پاک فوج کے جوان مادرِ وطن کے دفاع کے لیے اپنے سینوں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ  گئے اور بھارت کے مذموم مقاصد خاک میں ملادیے۔۔۔۔ بھارت میں چونڈہ کا مقام آج بھی ٹینکوں کے قبرستان کے نام سے مشہور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔چونڈہ کے اہل قلم جناب شیخ وثیق الرحمان  نے 65کے معرکہ کے حوالے سے چونڈہ کے ایک بزرگ جناب رحمت اللہ بٹ کی چشم دید گواہی پر مبنی ایک مکالمہ لکھا ہے۔۔۔۔کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا:کیا ٹینکوں کے نیچے بم باندھ کر لیٹنے والی کہانی سچی ہے؟ ''بٹ صاحب کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔۔۔انہوں نے اپنی سفید ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرا اور بتایا:میں وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتا جب 17ستمبر 1965 ء￿  کو دوپہر کے وقت پاکستانی کمانڈر بریگیڈیئر عبدالعلی نے اپنے جوانوں کو چونڈہ کے ریلوے سٹیشن پر اکٹھا کیا اور ایک مختصر تقریر میں کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ? کی نصرت کے لئے اپنے وطن پر جان قربان کر دیں اور دشمن کو پیچھے دھکیل دیں۔۔۔۔ کون کون اپنے وطن پر جان قربان کرنا چاہتا ہے؟تمام فوجی جوانوں نے بیک وقت ہاتھ اٹھا دیے۔۔۔۔ کمانڈر صاحب نے چند جوانوں کا انتخاب کیا اور ان کو دشمن کی صفوں میں گھس جانے کا ہدف دیا۔۔۔۔پلک جھپکتے وہ سرفروش آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچا دی۔۔۔۔ فضا بھاری دھماکوں سے گونج اٹھی اور بھارتی سنچورین ٹینکوں کے پرخچے اڑنے لگے۔۔۔۔وہ جگہ آج بھی "نشان عبرت "ہے جہاں تین سو بھارتی فوجی اجتماعی طور پر دفن کئے گئے جن کی لاشیں بھارتی فوج چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔۔چونڈہ کی یادوں سے مزین کالم کو سمیٹتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ پہل گام ہندوستان کی پہلی "پہیلی" نہیں۔۔۔بھارت کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ وہ کبھی پٹھان کوٹ تو کبھی ممبئی ایسی "بجھارتیں"کہتا اور خود ہی" اپنے دام "میں الجھ جاتا ہے۔۔۔۔ہندوستان کبھی چونڈہ محاذ کو بھولے گا نہ چونڈہ محاذ کی کاری ضرب کو۔۔۔۔ وہ کہانیاں تو گھڑے گا اور گیدڑ بھبھکیاں بھی مارے گا ،کبھی چونڈہ ایسی "مکروہ مہم جوئی" کی جسارت نہیں کرے گا۔۔۔۔پاکستان زندہ باد۔۔۔۔!!!

مزیدخبریں