کپتان برکت حسین شیخ کی یادیں
نگاہ بلند سخن دلنواز‘ جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے
سیکرٹری جنرل آل انڈیا مسلم لیگ گوجر خان 1944ء فاتح ، حصول پاکستان کے فیصلہ کن الیکشن 1946ء کے ہیرو تحریک پاکستان ‘ تاریخ امیر حزب اﷲ اور تاریخ گوجر خان کے مرکزی محدود چند بنیادی شخصیات میں کپتان برکت حسین شیخکا شمار ہوتا ہے۔ تاریخ عالم اس بات کی گواہ ہے جو افراد اور قومیں اپنے قائدین کو فراموش کرتی ہیں وہ جلد مٹ جایا کرتی ہیں۔ گزشتہ صدی یورپ اور برطانوی سامراج ایک ایسا ہی طوفان تھا جسے تحریک پاکستان کے ہیروز اور کارکنان کو سامنا کرنا پڑا۔ آخر کار اس استحصالی قوت کا رخ موڑ دیا گیا اور اﷲ کے فضل سے قیام پاکستان ممکن ہوا آپ گوجر خان شہر کے کپڑوں کے معروف تاجر شیخ فضل کریم کے فرزند اکبر ہیں۔ آپ آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے نائب صدر اور پھر سیکرٹری جنرل بنائے گئے۔ قیام پاکستان کی کامیاب جدوجہد تک ان پر فائز رہے۔ قاضی غلام حسن صدر مسلم لیگ تھے آل انڈیا مسلم لیگ گوجر خان میں 1933-34ء میں قائم ہوئی۔ جب لاہور سے راجہ صاحب محمود آباد جناب مجید نظامیؒ، مولانا ظفر علی خانؒ میاں محمد شفیعؒ، میاں ممتاز علی دولتالہ راولپنڈی سے سید مصطفیٰ شاہ گیلانی، شیخ عمر ،محمود حسن منٹو و دیگر صوبائی و مرکزی لیڈروں کی یہاں آمد شروع ہوئی۔ اس زمانے میں ضلع راولپنڈی میں کانگریس ‘ اکالی دل‘ مسلمان قوم پرستوں کے علاوہ مسلم لیگ اور یونینسٹ پارٹی کا بڑا زور تھا نہ صرف 1936-37ء میں یہاں الیکشن لڑا گیا بلکہ 1940ء میں قرارداد پاکستان کے مطالبے کے لئے یہاں سے قافلہ روانہ ہوا۔ 1942ء میں جب ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک چلی تو یہاں اس کا بھرپور خیر مقدم کیا گیا۔ یہ تحریک پاکستان کا زمانہ ہے۔ یہاں برصغیر میں مسلم لیڈروں کے طوفانی دورے شروع ہیں۔ پنجاب پوٹھوار میں بھی بڑی سرگرمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ یہ راولپنڈی میں ان کی آمد کے راستے میں گوجرخان پہلا اسٹیشن ہے۔ کارکن متحرک اور سرگرم تھے سرکاری اہلکار اپنے اور مسلم عوام اپنے کاموں میں مشغول ہیں۔ جھنڈے لگائے جا رہے ہیں اور باجے بجائے جا رہے ہیں سارے علاقے میں عید کا سا سماں ہے کیونکہ یہاں آج قائدین کی آمد تھی کہ اچانک ایک جم غفیر مین بازار سے نعرے لگاتا ہوا آگے بڑھتا ہے۔ لوگوں میں جوش و خروش سا آ جاتا ہے۔ مرد و زن ‘ بوڑھے ‘ بچے بیٹھے کھڑے نعروں کا جواب دیتے ہیں۔ ’’بٹ کے رہے گا ہندوستان‘ بن کے رہے گا پاکستان‘‘ اسلام زندہ باد‘ مسلم لیگ پائندہ باد‘ قائدین تابندہ باد‘ نعرہ جتنی زور سے لگایا جاتا ہے اس کا جواب اتنی ہی شدت سے آتا ہے۔ جناب آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تحصیل و شہر جناب برکت حسین شیخ جو جلوس کی قیادت کر رہے ہیں۔ اس زمانے کے معروف مسلم لیگی قائدین میں قاضی غلام حسن‘ راجہ سید اکبر صوبیدار امیر علی‘ مولوی اسحاق راجہ دلاور کپتان شیر جنگ مولانا امانت علی خواجہ یاسین‘ امین پاشا‘ سیٹھی کرامت علی‘ مولوی اسماعیل ‘ پیر صاحب گولڑہ شریف‘ ماسٹر یونس‘ عنایت اﷲ ‘ مستری نتھا باوا نظام الدین‘ جناب تیغ علی تیغ راجہ شیر باز ‘ شیخ عبدالقادر جناب ممبر شیخ اﷲ دتہ صاحب چاچا ہانکا اور نیشنل گارڈ کے سربراہ شیخ عبدالرحمن اور نوجوانوں میں سردار ضیاء ایوب کیانی ‘ سلطان احمد قمر‘ چودھری ریاض اختر‘ خواجہ یاسین‘ فوجی بھائی حبیب احمد ‘ بابو عبدالقدوس ‘ چیئرمین راجہ گلزار ‘ کرنل اشرف‘ حاجی عاشق ‘ غازی عبدالرشید ‘ صوفی کرم الہی محمد علی صراف اور ماسٹر نتھو صاحب وغیرہ بالآخر مسلم لیگ نے 1946ء کے الیکشن میں اپنی نمائندہ حیثیت منوا لی۔ گوجر خان میں بھی مسلم لیگ کے امیدوار جیت گئے فروری 1947ء کو برطانوی حکومت نے آزادی ہند کا اعلان کر دیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ 1948ء تک ہندوستان کو دو آزاد ریاستوں پاکستان اور بھارت میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ اﷲ کے فضل سے 14 اگست 1947 کو پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔ مسلمانان گوجر خان نے یہ ساری کارروائی ریڈیو پر سنی ۔ قیام پاکستان کے بعد حکومت پنجاب نے متروکہ جائیدادوں اورمہاجرین کی آبادکاری کے ممبر بنایا یہ کام آپ نے نہایت احسن طریقہ سے انجام دیا۔ سارا خالی پڑا تھا کیا ہمارا آج کا سیاسی منظر نامہ اس طرح کی مثالیں پیش کر سکتا ہے ؟آپ ساری عمر مسلمانوں اور پاکستان کے لئے سرگرم عمل رہے۔ تحریک خلافت ہو یا تحریک پاکستان مشائخ عظام کی تنظیمیں ہوں یا خدمت خلق کی نیلی پوش یا پھر نوائے وقت کیلئے جنگ ہو یا پھر بحالی جمہوریت کی جدوجہد آپ ہمیشہ نمایاں رہے۔ مسلم لیگ گوجر خان کا قیام‘ انجمن حمایت اسلام سے اسلامیہ سکول کی منظوری یا پھر سرور شہید ڈگری کالج کا قیام روزنامہ نوائے وقت اور دوسرے اخباروں کے ساتھ مل کر ہمیشہ کامیاب کوششیں کیں۔ مسلم لیگ کے مرکزی قائدین صوبائی زعماء نوائے وقت کے بانی حمید نظامیؒ روزنامہ زمیندار کے ایڈیٹر جناب مولانا ظفر علی خان ؒآپ ہی کی دعوت پر گوجر خان تشریف لائے۔ دوسروں کی طرح آپ نے بھی قیام پاکستان کے لئے اپنی جیب خالی کر دی تھی۔ حیرت ہے پھر بھی آپ کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوئی۔ آج بھی آپ کا گھر خاندان اور اولاد اسی شہر میں آباد ہیں اور آپ ہی کی پیروی میں رفاعی اصلاحی کاموں میں پیش پیش ہیں آپ کے ایک فرزند معروف سوشل ورکر منیر شیخ نے تحریک پاکستان کے قائدین کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے اپنی مدد آپ کے تحت آپ ہی کے نام پر ایک خود مختار انجمن ’’الکپتان میموریل سوسائٹی‘‘ بنا رکھی ہے۔