سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش طبقہ کے پاس زندہ رہنے کا واحد ذریعہ اجرتی غلامی ہوتا ہے۔ محنت کش طبقہ اپنی قوت محنت کو سرمایہ دار کے ہاتھوں گروی رکھ کر اپنے زندہ رہنے کے وسائل تک رسائی حاصل کرتا ہے لیکن موجودہ بحران زدہ کیفیت میں یہ نظام اپنے غلاموں کی غلامی کی حالت میں زندہ رکھنے سے قاصر ہوچکا ہے ۔کروڑوں انسان اس وقت کرہ ارض پر روز گار سے محروم ہیں اور ان بیروز گاروں کی فوج ظفر موج میں روز بروز اضافہ یہ اشارہ کر رہا ہے کہ نظام میں اب کسی قسم کی ترقی کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی یہ نظام اب اتنی کثیر تعداد کو پیداواری عمل میں شامل نہیں کر سکتا ۔چنانچہ یہ لاکھوں لوگوں کو مستقل طور پر بے روز گاری کی طرف دھکیل رہا ہے جو پوری دنیا کیلئے ایک المیہ ہے ۔بین الاقوامی لیبر فورس کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں 15 تا24 سال کے 9 کروڑ نوجوان بیروز گار ہیں۔ دنیا بھر کی 34 ترقی یافتہ اقوام میں 2 کروڑ 60 لاکھ نوجوان ایسے ہیں جن کا براہ راست، تعلیم اور روز گار میں کوئی حصہ نہیں ہے ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں ایسے نوجوانوں کی تعداد 26 کروڑ سے زائد ہے جبکہ تیسری دنیا میں ایسے نوجوان 29 کروڑ ہیں جن کی لیبر مارکیٹ میں کوئی شرکت داری نہیں ہے۔ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کو دینے کیلئے اس نظام کے پاس کچھ نہیں ہے جو بہت ہی افسوسناک ہے اب آتے ہیں وطن عزیز کی حالت زار 1999کے لیبر فورس سروے کے مطابق ملک میں بیروز گاروں کی تعداد 24 لاکھ تھی جو اب بڑھ کر 95 لاکھ تک پہنچ چکی ہے نوجوان بیروز گاروں کی تعداد کا تقریبا ایک کروڑ تک پہنچ جانا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہمارا نظام تعلیم فیل ، انصاف ناپید، معیشت کا بیٹرا غرق ، زراعت تباہ ، ملکی تھنک ٹینکس عقل سے نابلد ، حکومتی پالیسیاں ناکام ، ریاستی ادارے تباہی کے دہانے پر اور حکمرانوں کی طرف سے ترقی و خوشحالی کے جو نعرے لگائے جا رہے ہیں وہ کھوکھلے اور اخبارات تک محدود ہیں۔ عوام کی امیدوں اور امنگوں کا کھلواڑ کرنا حکمرانوں کی اولین ترجیحات رہی ہیں ۔
بیروزگاری ختم کرنے کی توقعات حکومت سے کرنا ہی فضول ہے چاہے کوئی بھی حکومت ہو کہ وہ روز گار پیدا کرے گی ۔حکومت کا کام روز گار کی فراہمی سرے سے ہوتا ہی نہیں ہے، حکومت کا کام پرسکون اور ساز گار ماحول فراہم کرنا ہوتا ہے جس سے کاروبار پھلے پھولے، معیشت کا پہیہ رواں دواں ہو جب حالات ایسے ہونگے تو اس سے خود بخود ہی روز گار کے مواقع پیدا، بیروز گاری کا خاتمہ اور شہریوں کے چہروں پر خوشحالی آئے گی ۔ملک میں امن و امان کے استحکام سے ڈگریاں ہاتھوں میں لئے نوجوان روز گار ملنے پرگھر بیٹھے بالوں میں سفیدی آجانے والی بہنوں کی شادی، ماں باپ کی ادویات، بیویوں کیلئے لباس اور بچوں کیلئے کھلونے کی صورت میں خوشیاں خرید سکیں گے۔قیام پاکستان سے لیکر اب تک میرے وطن عزیز میں برسرا قتدار رہنے والے ہر حکمران نے نعرہ، ترقی و خوشحالی، تعلیم، صحت، انصاف، بیروز گاری کے خاتمے، روٹی، کپڑا اور مکان کا لگایا مگر ہوا کیا کہ ہر بار اسی نعرے کے بل بوتے پر بھولی عوام کو پاگل بنا کر اقتدار تو حاصل کر لیا گیا مگر انہیں کچھ دینے کی بجائے ان سے چھینا ہی گیا۔ میرے عزیز دوستو اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کیسے عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ہر حکومت روز گار کے نام پر نوجوانوں کے ارمانوں کا خون کر رہی ہے پچھلی حکومت میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود نہ غربت میں کوئی کمی آئی اور نہ کسی کو روز گار ملا، البتہ اس سے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے حکمرانوں نے اپنے چہیتوں کو خوب نوازا جس کا سلسلہ موجودہ حکومت میں بھی جاری و ساری ہے پنجاب میں 30 سال سے برسراقتدار خاندان نے دوبارہ اقتدار سنبھالتے ہی سستی روٹی ، لیپ ٹاپ ، انرجی سیور، مکینیکل تنوروں و دیگر ایسی بے شمار خرافات کے ذریعے اربوں روپے ضائع تو کر دئیے مگر روز گار ، تعلیم ، صحت اور انصاف کیلئے کچھ نہیں ، جن کا سود اب بھی میرے اور آپ کے ٹیکس کے پیسوں سے جاری و ساری ہے۔کبھی نوجوانوں کے جذبات سے یوتھ انٹرن شپ پروگرام کیساتھ کھیلا گیا تو کبھی پڑھو پنجاب آگے بڑھو پنجاب کے نام پر ان کے ارمانوں کا خون کیا گیا موجودہ حکمرانوں نے اپنی ذاتی انا کی تسکین کیلئے نندی پور پاور پراجیکٹ ، بہاولپور سولر انرجی پارک ، میٹرو ٹرین ، میٹرو بس، آشیانہ ہاوسنگ سکیم پر تو اربوں روپے ڈوب دئیے جس کا خمیازہ آنے والی نسلیں بھگتیں گی مگرا ن کو رتی بر بھی شرم نہ آئی کہ ملک کے مستقبل کو محفوظ ہاتھوں میں دینے کیلئے نہ کوئی فیکٹری لگائی نہ کوئی یونیورسٹی بنائی، نہ ہی کوئی نیا ہسپتال بنایا گیا، نہ ہی سسک سسک کر مرتے ہوئے شہریوں کو پینے کا صاف پانی دینے کیلئے کوئی اقدامات کئے گئے موجودہ دور میں سب سے زیادہ فروغ جس کاروبار کو حاصل ہوا وہ ہے نجی تعلیمی اداروں کا ، ترجیحات کا تعین کئے بغیر ہی ان اداروں کو ڈگریاں باننٹے کی مشینیںبنا دیا گیا ، جہاں پر پیسے دو اور ڈگری لے کر مارکیٹ میں آجاو ڈگری بھی وہ کہ طوطے کی طرح رٹا لگائو اور میدان میں آکر گریجوایٹس ہونے کا دعوی کرلو ۔
فنی تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی اس بات کا تعین کیا گیا کہ قومی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں کس چیز کی ضرورت ہے اور کہاں ملکی لیبر کی کھپت کی جا سکتی ہے مضبوط معاشی و اقتصادی ٹیم رکھنے والوں نے پوری قوم کو بھکاری بنا دیا ایسے میں اگر اللہ پاک نے عوامی حمایت سے موو آن پاکستان کو اقتدار دیا تو وہ ملک کے مایوس نوجوانوں کیلئے امید کی کرن ثابت ہوگی ، تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ اور ہر شعبے کی ضرورت کے مطابق نوجوانوں کو تعلیم دی جائے گی تاکہ مستبقل کے یہ معمار ملکی ترقی میں اپنا کر دار ادا کرسکیں ، اجازت چاہونگا ، اللہ نگہبان ۔