”ڈپریشن“ انسانی خوشیوں کا قاتل
ربیعہ شاہد
ڈپریشن میں مبتلا افراد کے دماغ مےں کسی بھی افسوسناک واقعے یا کسی چیز کا ڈرخوف مستقل سوار رہتا ہے ۔ ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ دکھ اور سکھ ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہیں اگر دکھ نہ ہوں تو خوشی کی پہچان کرنا بھی ممکن نہ ہو۔ صحت مند ہونے کی علامت یہ ہے کہ ہم حقائق کو قبول کرتے ہوئے کسی بھی تلخ یا افسوسناک واقعے کو بھلا کے خوشیوں کی تلاش کا سفر جاری رکھتے ہیں لیکن ڈپریشن کے دوران ایسا کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اس مرض کے مرےض پر دکھ اور پریشانیاں مستقل طور پر مسلط ہو جاتی ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن ایک عام مرض نہیں بلکہ ذیابیطیس کی طرح ایک حیاتیاتی بیماری ہے۔البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ اس مرض کی علامات نفسیاتی ہیں۔دراصل اس کی وجہ انسانی ذہن میں ہونے والی حیاتیاتی کیمیائی تبدیلیاں ہیں جو اسے زندگی سے مایوس اور بیزار بنا دیتی ہیں۔
ایک عام مشاہدے کے مطابق معاشرے کا ہر طبقہ اس مرض کی یکساں زد میں ہے ۔انتہائی امیر اور انتہائی غریب بھی اس کا شکار ہوتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ 90فیصد لوگ محض یہ سوچ کر علاج نہیں کرواتے کہ لوگ کہیں یہ نہ سمجھیں کہ انہیں کوئی دماغی مسئلہ ہے یا وہ ذہنی بیماری کا شکار ہیں۔صرف دس فیصدافراد ایسے ہیں جو اسے نہ صرف ایک مرض سمجھتے ہیں بلکہ اپنا علاج کروانا بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔ہمارے ہاں مردوں میں کم اور عورتوں میں ڈپریشن کا مرض بہت زیادہ ہے۔چار خواتین میں سے ایک خاتون اور سات مردوں میں سے ایک مرد اس مرض کا شکار ضرور ہوتا ہے۔
بعض لوگوں کے خیال میں ایسی خواتین جن کے شوہروں کی آمدنی کم ہوتی ہے یا جن کے معاشی حالات انتہائی خراب ہوتے ہیںانہیں ڈپریشن کا زیادہ خطرہ رہتا ہے ۔لیکن ڈاکٹرز کی رائے میں یہ خیال درست نہیں کیونکہ اپر کلاس کی بہت سی خواتین جنہیں کسی قسم کی مالی پریشانیوں کا سامنا نہیں ہوتا لیکن وہ کم آمدنی رکھنے والی خواتین کے مقابلے میں زیادہ ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں ۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے کہ ڈپریشن کے مریضوں کوپُرامید زندگی کی طرف واپس لانا اتنا آسان نہیں۔طبی لحاظ سے دیگر امراض کی طرح ڈپریشن کی بھی تشخیص و تحقیق بروقت ہونی چاہیے۔اسی طرح جیسے دیگر امراض کے شکار افراد کو علاج‘توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی ڈپریشن میں مبتلا افراد بھی اس کا حق رکھتے ہیں ۔
ڈپریشن مرض کے حوالے سے دنیا بھر کے مقابلے میں شائد ہمار اواحد ملک ہے جہاں ڈپریشن کو پاگل پن کی بےماری تصور کیا جاتا ہے اور سائیکاٹرسٹ کے پاس جانا تو قطعی ممنوع ہے۔لوگ اس معاملے میں خاموش رہنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں جبکہ ڈپریشن کا مریض گھر والوں کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرنا چاہتاوہ اپنے اندر کی خاموش اور تکلیف دہ آوازیں خود ہی سنتا رہتا ہے۔خاص طور پر خواتین اپنے مرض کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہیںشوہر سمیت گھر کے دیگر افراد بھی انہیں بیمار تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔چنانچہ ان حالات میں مریضہ کو کسی سائیکاٹرسٹ کے پاس لے جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتااور بعض جگہ ایسی کوششوں کی مزاحمت بھی کی جاتی ہے۔نتیجے میں خواتین اپنے مرض کو جاننے سے قاصر رہتی ہیںاور بیماری کی بروقت تشخیص نہ ہونے کے باعث مرض بڑھتا رہتا ہے۔اکثردیکھا گیا ہے کہ خواتےن نیند کی گولیوں سے اپنا علاج خود کرنے لگ جاتی ہیں ۔ہمارے ہاں ایک اور خوفناک پہلو یہ ہے کہ آپ ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ہی کوئی بھی دوا میڈیکل سٹور سے لے سکتے ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق ڈپریشن کے دوران جسم کا مدافعتی نظام بھی شدید دباﺅ کا شکار ہو جاتا ہے۔اس کیفیت میں مریض کے دل کی دھڑکن غیر معمولی تیز ہو جاتی ہے‘بلڈ پریشر ‘انسولین اور کولیسٹرول کی سطح بڑھ جاتی ہے۔یہاں تک کہ خون کے کلوٹ (blood clotting)بھی تیزی سے بننے لگتے ہیں۔جس کے نتیجے میں لوگوں کو امراض قلب کے علاوہ اور بھی کئی مہلک بیماریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈپریشن کے اسباب مختلف لوگوں میں مختلف ہوتے ہیں۔اس کی کئی شکلیں اور کئی درجے ہوتے ہیں لیکن تین قسم کے درجے ہمارے ہاں زیادہ عام ہیں ۔طبی ڈپریشن یا میجر ڈپریشن ‘ڈس تھیمیا اور مینک ڈپریشن۔ میجر ڈپریشن کے شکار مریضوں کی سماجی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے اور ان کے علاج کے لیے بھی خاصہ وقت لگتا ہے۔تاہم یہ بات حوصلہ افزاءہے کہ تمام ڈپریشن قابل علاج ہیں۔لیکن یہ بہت ہی اچھی بات ہو گی کہ بروقت ہی ڈاکٹر سے علاج کروا لیا جائے۔ماہرین کے خیال میں مردوں کی نسبت عورتوں میں ڈپریشن زیادہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عورتیں بہت حد تک سماجی تعاون سے محروم رہتی ہیں جبکہ مردوںکا معاملہ ذرا مختلف ہے۔وہ اپنی کاروباری پریشانیاں ‘گھریلو پریشانیاںیہاں تک کہ ازدواجی معاملات پر بھی کھل کر بات کر لیتے ہیں ۔جبکہ خواتین گھروں میں تنہائی کا شکار رہتی ہیں ۔