عساکر پاکستان کی طرف سے قوم کی عسکری تاریخ اپنے خون سے رقم کرنے کا آغاز بلاشبہ حصول آزادی کے لمحوں ہی کے دوران ہو گیا تھا جب درماندہ قوم کے سپوتوں نے سربکف ہو کر داد شجاعت دیتے ہوئے پورے جموں و کشمیر کو ہڑپ کرنے کی بھارتی سازش کو ناکام بنا دیاتھا اور اپنی ہمت، حوصلوں اور قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کر کے آزاد کشمیر کا وسیع و عریض علاقہ حاصل کر لیا تھا۔ اس وقت سے لیکر 21ویں صدی کے دوسرے عشرے تک ان دہشتگردوں سے نمٹنے میں عساکر پاکستان سردھڑ کی بازی لگ رہی ہیں جو بیرون ممالک کی امداد اور سرپرستی میں پاکستان کو بلاتخصیص خاک و خون میں نہلانے کی ننگ انسانیت کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔یقینا پاکستان واحد ایسا ملک ہے جو حضرت قائداعظمؒ کی قیادت میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا۔ بلاشبہ دو قومی نظریہ سے مراد مسلمان اور ہندو تھے لیکن جب پاکستان معرض وجود میں آ گیا تو باقی پاکستان کی توجہ سرزمین پاکستان پر بسنے والے ہر شخص پر مرکوز ہو کر رہ گئی جو انکے نزدیک ایک قوم سے عبارت تھی۔ تاریخ کی اب کبھی مدھم نہ ہونے والی اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ کے دوقومی نظریہ کی مخالفت میں ایک مخصوص مکتب فکر کے مسلمان پیش پیش رہے۔ انہوں نے قیام پاکستان کی راہ میں روڑے اٹکانے میں ہندو کانگریس کا بھرپور ساتھ دیا تھا مگر جونہی پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا اسکے قیام کی مخالفت کرنیوالے بھی مشرقی پنجاب اور دیگر بھارتی علاقوں سے پاکستان میں آ گئے۔ میدان سیاست میں سرگرم عمل ہوئے اور بانی¿ پاکستان کے فرمودات و نظریہ سیاست میں نیم دروں نیم بروں الفاظ اور لہجوں میں تین میخ نکالنے کی رسم رواج دی گئی کچھ ایسی ہی سیاسی فضا میں شرپسندوں کو ملک کے پُرامن اور پرسکون ماحول کو تہہ و بالا کرنے کا بہانہ ہاتھ آگیا۔ اس حقیقت سے اغماض ممکن نہیں کہ شرپسندوں نے دہشت گردوں کا روپ دھار لیا اور پاکستان کے معصوم و بے گناہ عوام اُن کانشانہ بن گئے اور بنتے چلے جارہے ہیں دہشت گردوں نے اولیاءکرام اور صوفیائے عظام کے مزارات پر بم دھماکے کئے ستم باعثِ ستم حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردوں سے عبارت تنظیموں کا نام لیکر انکی ننگِ انسانیت کارروائیوں کی مذمت کرنے سے بعض ایسی سیاسی جماعتیں بھی کتراتی ہیں جنہوں نے تحریک پاکستان میں حضرت قائداعظمؒ کی مخالفت کی تھی، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ دہشت گردوں کو بعض بیرونی ممالک سے باقاعدہ امداد ملتی اور انکی سرپرستی بھی ہوتی ہے ایسے حقائق ہی کے نتیجے میں پاکستان کے جمہوریت پسند عوام کی عظیم اکثریت دہشت گردوں کو قانون کے شکنجے میں لاکر کیفر کردار تک پہنچانے کی خواہاںہے ۔ جنرل راحیل شریف کا یہ کہنا یقینا سو فیصد درست ہے کہ ملک بھر سے ملک دشمن عناصر کے رابطے ختم کئے جارہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ ارضِ وطن کے مختلف علاقوں میں دہشتگرد تنظیموں نے اپنی کمین گاہیں بنا رکھی ہیں جن میں نہ صرف وہ چھپے ہوئے ہیں اور اپنے اندرونی اور بیرونی ”آقاﺅں“ کے اشاروں پر موقع ملتے ہی انسانی جانوں سے کھیلنے کی آس لگائے بیٹھے ہیں، جیسا کہ گزشتہ دنوں کراچی میں سپر ہائی وے کے قریب سہراب گوٹھ کے علاقے میں پولیس مقابلے میں کالعدم تحریک طالبان کے کمانڈر سمیت چار دہشتگرد واصل جہنم ہوئے۔ ایسے دہشت گردوں کے ڈانڈے ملک کی کن ”شخصیات“ سے ملتے ہیں؟ ملک کی قومی سلامتی سے متعلق ایجنسیوں کو ان حقائق کا بھی کھوج لگا کر انہیں قوم کے سامنے لانا چاہئے۔ یہ پاکستان کے کروڑوں امن کے متلاشی عوام کی دعاﺅں کا اثر ہے کہ قدرت نے محافظینِ وطن اور ان کی قیادت کو بروقت خبردار کیا ہے کہ پاک افغان بارڈر سے لےکر گوادر آواران اورکیماڑی تک کے چپے چپے میں محافظین وطن ملک قوم کے بدترین دشمنوں سے برسرپیکار ہیں وہ قوم کے مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کےلئے پرامن فضائیں مہیا کرنے کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ حقائق کچھ اس طرح ہیںکہ پاکستان کی افواج جس میں بری اور فضائیہ بھی شامل ہے پاکستان اور اسکے کروڑوں عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی خاطر جان توڑ جدوجہد میں مصروف ہے۔ فوج تن تنہا پاکستان کو بچانے کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس جنگ میں اسے اپنی پاکستانی قوم کے سواکسی دوست ملک کا باقاعدہ عملی تعاون یاامداد حاصل نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی دوست اسلامی ملک کی طرف سے ان دہشتگردوں اور انکی تنظیموں کی مذمت تک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔ اسکے باوجود افواج پاکستان اپنے اللہ اور اسکے محبوب حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے عوام کی دعاﺅں کے سائے میں اپنی عسکری تاریخ کے روشن باب مرتب کرتی چلی جارہی ہے۔ پاکستان میں بعض سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی طرف سے مخصوص مفادات کے تحت متنازعہ معاملات پر بحث و تمحیص کیلئے جلسوں اور مذاکروں کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر حرص و ہوس زر اور طمع و لالچ کو پیرکاہ جتنی بھی اہمیت نہ دیتے ہوئے عسا کر پاکستان اور اسکی قیادت بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ کے اس فرمان کی روشنی میں داستان حریت کا روشن باب رقم کررہی ہے۔ حضرت قائداعظمؒ نے 21 فروری 1948ءکو ملیر کراچی میں دو رجمنٹوں کے افسروں اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے ایک جگہ فرمایا تھا:۔ ”اب آپکو اپنی پاک سرزمین میں اسلامی جمہوریت اسلامی معاشرتی انصاف اور انسانی مساوات کے اصولوں کے احیاءاور فروغ کی پاسبانی کرنی ہے‘اس اہم کام کیلئے آپ کو ہمہ تن ہمہ وقت تیار اور ہوشیار رہنا پڑیگا۔ سستانے کا موقعہ ابھی نہیں آیا ہے، اگر آپ ایمان ، تنظیم اور بے لوث فرض شناسی کے زریں اصولوں پر کاربند رہیں تو کوئی شے ایسی نہیں جسے آپ حاصل نہ کرسکیں“۔ آفرین صد آفرین اے عسا کر پاکستان اور اسکی قیادت آپ کے جذبہ¿ حب الوطنی پر....آفرین!!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38