تحریک انصاف نے تھیلے سے جو بلی نکالنی ہے اب نکال دینی چاہئے ورنہ باقی تین سال بھی تھیلے اور بلی کی سیاست میں گزر جائیں گے اور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا البتہ فوج بیرکوں سے نکل آئے گی۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ عمران خان کے مطابق الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے ثبوت تھیلے میں ہیں تو پھر عمران خان کے پاس کیا ہے۔ تو جناب وزیراعظم صاحب! عمران خان کے پاس بھی ویسی ہی ایک زبان ہے جیسی آپ کے ترجمانوں کے پاس ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ آپ کبھی کبھی بولتے ہیں اورآپ کے ترجمان اور وزراء بلا ناغہ بولتے ہیں۔ عمران خان بول کر ’’سوری‘‘ کر لیتے ہیں، زبان سے مکر جاتے ہیں، یوٹرن بھی لے لیتے ہیں لیکن آپ کے ترجمان تو بولتے وقت یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ یہ اندرون بھاٹی گیٹ کی زنانیوں کی لڑائی نہیں بلکہ حکومتی پارٹی کے ذمہ داران عہدیداران کے بیانات ہیں جن پر کبھی کبھار ’’ماجھے گامے‘‘ ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ الزامات اور بدزبانی کی سیاست کبھی اتنی نچلی سطح تک پہنچ جائے گی سوچا نہ تھا۔ ملک کی تمام سیاسی و مذہبی پارٹیوں کی زبان کا ریموٹ کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہے جو کبھی سامنے اور کبھی پیچھے سے حکومت کرتے ہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ یہ ملک کنٹینر کی سیاست کا دوبارہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ عمران خان کے بقول ’’غدار میڈیا‘‘ کو انٹرویو میں باور کرایا گیاکہ تھیلے سے بلی نکلے یا ثبوت، دھرنے والی غلطی نہیں دہرائیں گے۔ عمران خان کے نام نہاد حامیان نے انہیں جتنا نقصان پہنچانا تھا پہنچا دیا۔ جماعت اسلامی کے کراچی الیکشن کے حوالے سے خان صاحب کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی دوغلی پالیسی سے اپنا رہی ہے، اسے فیصلہ کرنا ہو گا کہ مسلم لیگ نواز کی حمایت چاہتی ہے یا تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد۔ یہی نصیحت عمران خان کو کی گئی تھی کہ اتحادیوں کے انتخاب میں عقلمندی کا ثبوت دیں مگر خان نے لاکھ سمجھانے کے باوجود طاہر القادری سے ’’جپھی‘‘ ڈال لی بلکہ ان کے قدموں میں بیٹھ کر عید کا خطبہ بھی سنا اور نماز اتحاد بھی ادا کی ۔ دھرنا سیزن کے دوران ایسے ایسے ڈرامے پیش کیئے گئے کہ سوچ کر افسوس بھی ہوتا ہے اور ہنسی بھی آتی ہے۔ مولانا قادری صاحب کفن لے آئے، قبریں کھود لی گئیں، ساتھ جینے مرنے کے وعدے کئے گئے اور پھر اختتام ’’ترلوں‘‘ پر جا ہوا کہ کسی طرح انہیں ’’فیس سیونگ‘‘ اور کینیڈا واپسی کا کرایہ دے دیا جائے۔ خان کو شیخ رشید جیسوں نے بہت نقصان پہنچایا، ایمپائر کی انگلی بھی نہ اٹھ سکی اور جاوید ہاشمی بھی گھر بھیج دیئے گئے۔ عمران خان بھی بابے تبدل کرتے رہتے ہیں، آجکل جو بابا پکڑ رکھا ہے اس نے انہیںاسی سال الیکشن کی پیشگوئی دی ہے اور خان صاحب تھیلوں کے نتائج آتے ہی الیکشن دیکھ رہے ہیں۔ کنٹینر پر کس نے کس قسم کی زبان استعمال کی سب آن ریکارڈ ہے اوردیکھنے والوں نے یہ بھی دیکھا کہ خواجہ آصف نے جو زبان استعمال کی، وزیراعظم پاکستان ان کے پہلو میں بیٹھے مزے لے رہے تھے۔ زبان اپنی ہو یا کرائے کی، سب ہی گند گھول رہے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے لندن سے دکھائے جانے والے ڈبوں سے ثبوت نہیں نکلوائے جا سکے تو خان کے تھیلوں اورایم کیو ایم کے خلاف ثبوت کیوں کر ثابت کئے جا سکتے ہیں۔ ایک پٹھان عرب گیا، ٹیکسی میں بیٹھا اور جب منزل پر پہنچنے والا تھا تو بہت پریشان ہوا کہ عربی میں ٹیکسی روکنے کو کیا کہتے ہیں، بہت سوچنے کے بعد ڈرائیور کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے بولا ’’صدق اللہ العظیم‘‘…! بہت سے مسائل و معاملات کی طرح جوڈیشنل کمشن بھی ’’صدق اللہ العظیم‘‘ ہو جائے گا۔ کراچی میں اپریشن تھیلوں سے بھی ایسے ایسے بلّے برآمد ہو رہے ہیں کہ لگتا ہے کہ ایم کیو ایم زمین بوس ہو جائے گی لیکن کچھ عرصہ بعد پتہ چلتاہے کہ سب میڈیا شوتھا، ماضی بعید اور قریب کی متعدد مثالوں کی طرح ایس پی ملیر کراچی کے ثبوت بھی ان کی زبان کے ساتھ بند کر دیئے جائیں گے۔ ایم کیو ایم سنگین الزامات و مقدمات کے باوجود حالیہ الیکشن جیت گئی، عمران خان بھی ایم کیو ایم کو برملا دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں، امید ہے تحریک انصاف کے تھیلوں سے ایم کیو ایم کی دھاندلی کے ثبوت بھی برآمد ہوں گے۔ نواز شریف کا سوال کہ اگر ثبوت تھیلوں میں ہیں تو عمران خان کے پاس کیا ہے… تو جناب عالی عمران خان کے پاس الزامات والی زبان ہے اور ثبوت تھیلوں میں ہیں البتہ یہ فیصلہ جوڈیشنل کمشن کی صوابدید پرہے کہ تھیلے سے بلی نکالتے ہیں یا ثبوت!
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024