متحدہ خون بہانے کی ترغیب کے بجائے کراچی کو پرامن بنانے میں کردار ادا کرے

پولیس افسر کو متحدہ پر پابندی کے مطالبے کا کوئی حق نہیں‘ الطاف حسین آپے سے باہر ہو گئے ‘ فوجی ترجمان کا شدید اور بجا ردعمل
ایس ایس پی ملیر رائو انوار نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم دہشت گرد جماعت ہے، اس پر پابندی لگائی جائے یہ پاکستان تحریک طالبان سے زیادہ خطرناک تنظیم ہے۔ ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم نے دو دہشت گرد گرفتار کئے ہیں۔ دہشت گردوں کے قبضے سے بارودی مواد قبضے میں لیا ہے دہشت گردوں میں طاہر عرف لمبا اور جنید شامل ہیں۔ گرفتار دونوں دہشت گرد کے ایم سی کے ملازم ہیں‘ انہوں نے بھارت میں تربیت کا اعتراف کیا۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کو بنکاک سے بھارت تربیت کیلئے لے جایا جاتا ہے۔ را کے ایجنٹوں کو ایم کیو ایم کے اہم رہنمائوں کا تعاون حاصل ہے۔ ابھی تک 60 لڑکوں کی بھارت سے ٹریننگ کی اطلاعات ملی ہیں۔ جاوید لنگڑا کا بھائی جنید الطاف حسین کا خاص آدمی ہے دہشت گرد جاوید لنگڑا کو بھارت نے شہریت دیدی ہے۔ الطاف حسین‘ محمد انور کو ہدایات محمد انور نائن زیرو کو پہنچاتے ہیں۔
رائو انوارکی پریس کانفرنس پاکستان کے پورے میڈیا نے کور کی۔ اسکے بعد رات گیارہ بجے تک وہ مختلف چینلز کو انٹرویو دیتے رہے۔ بالآخر ان کو حکومت سندھ نے انکے عہدے سے ہٹا دیا۔ رائو انوار کی طرف سے میڈیا میں ملزموں کو پیش کرنے پر ایسے حالات میں درست عمل کہا جا سکتا ہے۔ مگر انکی طرف سے متحدہ قومی موومنٹ پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرنے کا کوئی جواز ہے نہ اس کا انہیں اختیار حاصل تھا۔ ایس ایس پی کے متحدہ پر الزامات کے بعد رابطہ کمیٹی کی طرف سے کہا گیا کہ یہ سیاسی ڈرامہ کسی اور کا تھا۔ فاروق ستار کا سوال ہے کہ زرداری قائم علی شاہ ملاقات میں تیسرا کون تھا؟ تجزیہ نگار کہتے ہیں ان کا اشارہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی طرف ہو سکتا ہے۔ وہ اس روز کراچی میں تھے تاہم وثوق کے ساتھ متحدہ بھی جنرل راحیل شریف کا نام لینے سے گریز کررہی ہے۔ اس میں شبہ نہیں ہو سکتا کہ ایس ایس پی لیول کا افسر اپنی مرضی سے اس قسم کی دھواں دار پریس کانفرنس نہیں کر سکتا۔ پریس کانفرنس میں سنسنی خیزانکشافات اور ملزموں کے اعترافات حیران کن تھے۔ بہتر تھا کہ ایس ایس پی ملزموں کو میڈیا کے سامنے ثبوتوں کے ساتھ پیش کرتے اور انکے ’’را‘‘ سے رابطوں اور ٹریننگ کے اعتراف کے بعد حکومتی سطح پر پیشرفت ہوتی۔ متحدہ پر ایسے الزامات پہلے بھی لگتے رہے ہیں‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی مصلحتوں‘ وقتی سیاسی مفادات اور آپس کی سیاسی مخالفت کے باعث انکی تحقیقات اور تفتیش ادھوری رہ گئی۔ متحدہ بھی ایسے الزامات پر کبھی کورٹ نہیں گئی۔ اسکی طرف سے ہمیشہ یہی کہا گیا کہ کورٹ جانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں اور یہ محفوظ ہی رہا شاید اسکے استعمال سے ’’محفوظ حق‘‘ کو کوئی گزند پہنچ سکتی ہے۔
متحدہ کی طرف سے غیرروایتی طور پر میڈیا کے سامنے پیش کئے گئے دونوں ملزموں کو اپنے کارکن تسلیم کیا گیاہے۔ انکے بیانات کی بنیاد پر اب متحدہ کے پاس ’’را‘‘ سے رابطوں سے انکار کیسے ممکن ہوگا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ متحدہ جنید اور طاہر لمبا کو اپنے کا رکن تسلیم کرنے کے بجائے ایسے مجرموں سے لاتعلقی ظاہر کرتی بلکہ اپنی صفوں میں اگر ایسے جرائم پیشہ لوگ ہیں ان کو سکیورٹی اداروں کے حوالے کر دیتی۔ اب اسکی صفوں میں موجود شدت پسند عناصر کے حوصلے مزید بلند ہونگے کہ متحدہ کی قیادت انکا تحفظ کریگی۔
اِدھر ایس ایس پی انوار متحدہ کی قیادت کو کریمنل ثابت کررہے تھے تو اُدھر صولت مرزا کا جے آئی ٹی کو دیا بیان بھی سامنے آگیا جس میں اس نے 13 افراد کو متحدہ کے قائدین کی ہدایت پر قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ شاہد حامد کے قتل کی صولت مرزا کے بقول ہدایت بابر غوری نے دی تھی جو صولت مرزا کی پہلی ویڈیو سامنے آنے پر پاکستان سے لندن چلے گئے۔ صولت مرزا کو تین افراد کے قتل کے جرم میں سزائے موت ہوئی‘ وہ مزید 10 افراد کے قتل کا بھی اعتراف کر رہا ہے۔ اس کو متحدہ اون کرتی رہی اب لاتعلقی ظاہر کررہی ہے۔
رائو انوار کی پریس کانفرنس پر رات گئے متحدہ کے قائد خوب برسے‘ انہوں نے اڑھائی گھنٹے کی تقریر میں بہت کچھ کہا اور ایسا کچھ بھی کہہ گئے جو اتنا غیرمہذبانہ اور غیراخلاقی ہے کہ یہاں اس کا حوالہ بھی نہیں دیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ڈیئرنگ‘‘ میڈیا چینلز نے بھی وہ فقرے Repeat کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کے حوالے سے وہ جو کچھ کہہ رہے تھے‘ اس پر سامعین میں سے کچھ کی جانب سے نعر ے لگانے اور تالیاں پیٹنے کو ان کا اخلاقی دیوالیہ پن ہی کہا جا سکتا ہے۔ رائو انوار نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر مطالبات اور باتیں کیں مگر انہوں نے کسی کو بھنگی اور سور سے تشبیہ نہیں دی جبکہ الطاف حسین جیسے بڑے قد اور لاکھوں افراد کے قائد نے ایسا کہنے سے دریغ نہیں کیا۔
الطاف حسین نے فوج پر بھی غصہ نکالا۔ اس پر متحدہ کے رہنمائوں کی طرف سے وضاحت کی گئی کہ الطاف بھائی نے آرمی چیف کی تعریف کی تھی۔’’ تمہاری چھڑیاں رہیں گی نہ سٹار رہیں گے۔ غدار ہتھیار پھینکنے والی فوج ہے یا پاکستان بنانے والے مہاجر ہیں۔‘‘ اگر یہ فوج کی عزت اور تعریف ہے تو توہین کیا ہو سکتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے الطاف حسین کے فوج سے متعلق بیان کی سخت مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عوام کے جذبات بھڑکانے کیلئے میڈیا کا سہارا لیا گیا ہے‘ عوام کو ریاست کیخلاف اکسانے پر قانونی چارہ جوئی کی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ فوج سے متعلق الطاف حسین کا بیان بے ہودہ‘ نفرت انگیز اور غیرضروری ہے‘ فوجی قیادت سے متعلق اس طرح کے بیانات برداشت نہیں کئے جائینگے۔
الطاف حسین نے اپنے خطاب میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ فوج اپنے اندر مجرموں کو کیوں نہیں پکڑتی‘ اس کا بہرحال فوج کو جواب دینا چاہیے۔ الطاف حسین نے جذبات میں آکر یا سنجیدگی سے اپنے پیروکار اور پرستار نوجوانوں کو اسلحہ کی تربیت اور جسمانی ٹریننگ حاصل کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ سے متحدہ کی کھل کر حمایت کرنے کا بھی تقاضا کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ پھر دیکھیں گے کہ دریائے سندھ میں کس کا خون بہتا ہے۔ متحدہ پر بھارت سے اسلحہ کے حصول کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔ ماضی قریب میں اسکے دفتر سے مبینہ طور پر بھارتی اسلحہ برآمد ہوا۔ 19 اسلحہ کے نیٹو کنٹینرز غائب ہونے کا بیان اس وقت کے ڈی جی کراچی رینجرز رضوان اختر نے سپریم کورٹ میں دیا تھا۔ انہوں نے بابر غوری کے ایماء پر اسلحہ غائب کرنے کا الزام لگایا‘ اسکی بیانات کی حد تک متحدہ نے وضاحت کی‘ اتنے بڑے الزام سے خود کو عدلیہ سے کلیئر کرانے کی کوشش نہیں کی گئی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاکھوں نوجوان جنگی تربیت حاصل کرکے کیا دریائے سندھ میں خون بھارتی اور نیٹو کے مسروقہ اسلحہ سے بہائیں گے؟ الطاف حسین اور ان جیسے کراچی کے لاکھوں مکینوں کے آبائو اجداد نے قربانیاں دے کر کیا پاکستان اس لئے بنایا تھا کہ دریائے سندھ کو خون سے بھر دیا جائیگا؟
ماضی میں متحدہ کی طرف سے گرفتاریوں پر شدید ردعمل کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ ہڑتالیں اور مظاہرے کئے جاتے تھے‘ ٹارگٹ کلنگ بھی ہوتی رہتی تھی‘ 10 مارچ کو نائن زیرو پر رینجرز کے اپریشن کے بعد ٹارگٹ کلنگ کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔ بدقسمتی سے رائو انوار کی پریس کانفرنس پر الطاف حسین کے شدید ردعمل کے بعد ایس ایس پی ملیر کے ساتھی ڈی ایس پی قاسم عبدالفتح کو انکے ڈرائیور اور گن مین سمیت فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا۔ یہ کسی تیسرے فریق کی کارروائی ہو سکتی ہے مگر الزام متحدہ پر ہی آئیگا۔ کراچی کے حالات جس حد تک دگرگوں ہوگئے اور الطاف حسین جس طرح نوجوانوں کو تربیت حاصل کرنے کی ہدایت کررہے ہیں اور را کو مدد کیلئے پکاررہے ہیں‘ انہوں نے اپنے رویے پر نظرثانی نہ کی اور کراچی سے جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے میں رینجرز سے تعاون نہ کیا تو حکومت کے پاس صوبے میں گورنر راج کے سوا شایدکوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔