تمام بچے یکساں سلوک کے مستحق
حافظ محمداسحاق جیلانی
کہتے ہیں کہ والدین اپنے ہربچے سے یکساں محبت کرتے ہیں ان کی محبت کے آگے حسن ، قابلیت ، جنس یا عمر جیسے تمام فرق بے معنی ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ اپنی تخلیق سے سب ہی کو پیار ہو تا ہے ، چا ہے اس میں ایک نقص ہو یا ہزار ، لیکن چونکہ والدین کو ئی فرشتہ نہیں ۔ اس لئے بعض اوقات وہ انجانے میں کچھ ایسی غلطیاںکر جاتے ہیں کہ جو ان کے بچے کی شخصیت ، ذہنیت اور روئیے پرمنفی اثرات ڈالتی ہے ۔ والدین اپنے پہلے بچے سے خاص دلی لگا ئو رکھتے ہیں، وہ اسے ضرورت سے زیادہ وقت دیتے ہیں، ۔ اس کے لیے ہروقت فکر مند رہتے ہیں، اس کی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پرپر جوش ہو جاتے ہیں اور ہمیشہ اسے خوش کر نے کے لیے اپنی گنجائش سے کچھ زیادہ کرنے کی خواہش کر تے ہیں کیونکہ پہلابچہ ان کی زندگی میں بڑی تبدیلیاں لاتاہے ۔ وہ اس کے ذریعے کچھ ایسے احساسات سے آشنا ہو تے ہیں جن سے اس کی پیدائش سے قبل بالکل نا واقف تھے۔ والدین کی تو جہ و محبت کا اثر پہلے بچے کو اکثر پر اعتماد ، منظم ، کامیاب اور مضبوط بنا دیتا ہے ۔ مثال کے طور پر دنیا کی سپر پاور امر یکہ کے اب تک بننے والے تمام صدر یا تو اپنے والدین کی پہلی اولاد تھے یا پھر بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ جس طرح والدین اپنے پہلے بچے کی تربیت پر خاص توجہ دیتے ہیں ویسے ہی وہ سب سے چھوٹے بچے کے لاڈ اٹھاتے نہیںتھکتے ، چھوٹے بچے کی اکثر طرف دار ی کی جاتی ہے ۔ اس کی غلطیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ اس کی خواہشات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اور کچھ گھرانے تو اسے تمام خاندانی پابندیوں اور اصولوں سے بھی آزادی دے دیتے ہیں۔ ایسے میں وہ اپنی مر ضی کی زندگی جیتے ہیں۔ والدین بڑے بچے سے دلی لگائو اور چھوٹے کی فکر میں بیچ والے بچو ں کو اکثر انجانے میںنظر انداز کر جاتے ہیں ، انکا یہ غیر منصفانہ اندا ز یا رویہ بیچ والے بچے کو احساس کمتری کا شکار کر دیتا ہے ۔ والدین کی جانب سے مسلسل نظر انداز ہو نے کی وجہ سے ایسے بچے ایک ایسی ذہنی کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں اس کیفیت کا شکا ر بچے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے باقی بہن بھائیوں سے کم تر ہیں ، ان کی گھر میں کوئی اہمیت نہیں، اور نہ ہی کسی کو ان کی ضرورت ہے ۔ درمیان والے بچے والدین کی جانب سے تو جہ و محبت کے منتظر رہتے ہیں اندر ہی اندر بکھرتے چلے جاتے ہیں ۔ اکثر والدین اپنے بیچ والے بچوں کی سالگرہ بھول جاتے ہیں لیکن انہیں اپنے پہلے بچے کی سالگرہ یادرہتی ہے کیونکہ پہلے بچے کی پیدائش ان کے لیے یادگار لمحہ تھا۔ جب درمیان والے بچے اور بڑے بچے میں کسی بات پر تکرار ہو تی ہے تو والدین جانبدارانہ رویہ اختیار کر تے ہو ئے بیچ والے بچے سے کہتے ہیں کہ اسے اپنے بڑوں کی عزت کرنی چاہیے اس لیے وہ خاموش رہے ، چاہے غلطی بڑے کی ہو ، مگر مجرم وہی قرار پاتا ہے ، یہی نہیں بلکہ بیچ والے بچوں کو کئی بار چھوٹے بھائی یا بہن کے لیے بھی کئی قسم کی قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔ درمیان والے بچے اپنے والدین سے جب یہ شکایت کرتے ہیں کہ چھوٹا بھائی یا بہن اس کے کھلونے توڑ دیتے ہیں یا اسے اپنا پسندیدہ ٹی وی پروگرام نہیں دیکھنے دیتے تو اسے بہلانے کے لیے کہاجاتا ہے کہ ’’ کو ئی بات نہیں بیٹا ! اسے کرنے دو کیونکہ وہ تو چھوٹاا ور ناسمجھ ہے مگر آپ تو سمجھ دار ہو نا ۔ ‘‘ ایسے میں درمیان والے بچے چھوٹوں کو خوش رکھنے کے لیے نہ صرف ماں باپ کی تو جہ کی قربانی دیتے ہیں بلکہ اپنی چیزیں بھی قربان کردیتے ہیں ۔ ایسے حالات میں درمیان والا بچہ دو مختلف قسم کے رویے اپناتا ہے یاتو وہ توجہ حاصل کرنے کے لیے ہرکام بڑے بھائی یا بہن سے زیا دہ اچھا کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ اس طرح وہ ماں باپ کی نظروں میں آسکے یاپھر احساس کمتر ی و عدم تو جہ کا شکار یہ بچہ خود میں بگاڑ لا تاہے ۔ گھر والوں کے ساتھ بر ارویہ اختیار کرتا ہے خود کو برا ظاہر کر نے کی کوشش کرتا ہے تا کہ اس طر ح سے والدین کی تو جہ حاصل کر سکے ۔ کیونکہ انسانی فطرت میں ہے کہ وہ کسی بھی چیز پریا تو اس وقت توجہ دیتا ہے جب وہ اس کی سو چ سے بڑھ کر اچھی ثابت ہو یا اس وقت جب وہ کسی بگاڑ کا شکار ہو جا ئے ۔ اور اگر والدین اسے مسئلے کو تو جہ نہ دیں تو اس کے بہت برے نتائج بھی سامنے آتے ہیں ۔ احساس کمتری وعدم توجہ کا شکار بچے خود کو دوسروں کے لیے بو جھ تصور کر نے لگتے ہیں، ایسے میں والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے تمام بچوں کو یکساں محبت ، وقت اور تو جہ دینے کی کو شش کر یں ، والدین مختلف وجو ہات کی وجہ سے اپنے پہلے اور آخری بچے کے لیے زیادہ فکر مند رہتے ہیں اور انہیں زیادہ وقت دیتے ہیں لیکن انہیں بیچ والے بچوں کیلئے بھی الگ سے وقت نکالناپڑے گا او ر انہیں یہ احساس دلانا ہو گا کہ وہ ان کے لیے کتنے اہم ہیں۔