ڈاکٹر میاں نعیم رضا .....
پشاور یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ میں ایسوسی ایشن فار اکیڈیمک کوالٹی (آفاق) کے زیراہتمام ”قومی یکجہتی میں تعلیم کا کردار“ کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے کہا تھا ”پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اس وقت ”9“سے زائد نصاب پڑھائے جا رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ تمام نصاب ”طبقاتی نظام تعلیم“ کا حصہ ہیں۔ جس سے وسیع تر قومی اتحاد اور یکجہتی تو کجا معمولی سطح کا باہمی اتحاد و اتفاق بھی پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے موجودہ نظام تعلیم سے اتحاد نہیں بلکہ بے اتفاقی اور ناانصافی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک میں وقتاً فوقتاً قومی مقاصد سے عاری تعلیمی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں مگر ”طبقاتی نظام تعلیم“ جوں کا توں قائم رہتا ہے“۔ یہ سیمینار ماہ دسمبر2011ءکے تیسرے ہفتہ کے دوران منعقد کیا گیا۔ جس میں ڈاکٹر ارباب خان آفریدی، ڈاکٹر دوست محمد، ڈاکٹر فخر السلام ، ڈاکٹر جوہر علی اور پروفیسر تنویر احمد سمیت دیگر ماہرین تعلیم نے شرکت کی تھی۔خوب یاد آیا کہ1960ءمیں جب ایوب خانی آمریت ملک میں اپنے فولادی پنجے مضبوطی سے گاڑ رہی تھی ”فیلڈ مارشل“ کی حکومت نے ماہرین تعلیم کی ایک ”قومی نصاب کمیٹی“قائم کی تھی جس میں وفاقی وزارت تعلیم کے علاوہ ملک کے دونوں حصوں (مغربی اور مشرقی پاکستان) کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے متعدد ماہرین تعلیم کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ ان میں بنگالیوں کے علاوہ پنجابی، سندھی، بلوچی اور پختون ماہرین تعلیم سبھی شامل تھے۔ پاکستان کے ایک ممتاز ماہر تعلیم اور دانشور مرحوم ومغفور پروفیسر تاج محمد خیال جو ان دنوں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی تھے اس قومی نصاب کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ یہ کمیٹی کم و بیش پچاس یا ساٹھ ارکان پر مشتمل تھی اور اس کی کئی ایک سب کمیٹیاں بھی قائم کی گئی تھیں تاکہ نصاب تعلیم کے تمام شعبوں کو ”بہتر“بنایا جا سکے۔ ان دنوں راقم الحروف پشاور میں روزنامہ ”نوائے وقت“‘ کا بیورو چیف تھا اور پشاور شہرکے سوئیکارنو چوک کے قریب واقع اسلامیہ کلب بلڈنگ میں امریکہ نے اپنا مرکز اطلاعات نیا نیا قائم کیا تھا اور جن مقامی صحافیوں اور شہر کے دیگر معززین کو اس مرکز کی لائبریری کا اعزازی رکن بنایا گیا تھا ان میں راقم الحروف کی رکنیت کا نمبر9 تھا۔ ان ہی ایام میں ”قومی نصاب کمیٹی“ کا ایک اجلاس پشاور میں امریکی مرکز اطلاعات کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوا، اس موقع پر امریکی مرکز اطلاعات پشاور نے کمیٹی کے ارکان کے اعزاز میں ایک عشائیہ بھی دیا جس میں دیگر معززین شہر کے علاوہ مقامی صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ چنانچہ راقم الحروف کو بھی اس عشائیہ میں شرکت کا موقع ملا اور اسے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ”قومی نصاب کمیٹی“ کی ”ہرسب کمیٹی“ میں امریکی مشیر بیٹھے ہوئے ہیں چنانچہ راقم الحروف نے مرحوم و مغفور پروفیسر تاج محمد خیال سے رابطہ کر کے ان امریکیوں کی اتنی بڑی تعداد میں موجودگی کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے انتہائی دکھ اور کرب کے ساتھ اسے ہماری قوم کی بدقسمتی قرار دیا اور یہ بھی بتایا کہ”فیلڈ مارشل“ نے یہ حکم بھی جاری کیا ہے کہ امریکی مشیر جو بھی سفارشات پیش کریں وہ ”قومی نصاب کمیٹی“ اپنی رپورٹ کی شکل میں منظور کر کے انہیں پیش کرے تاکہ وہ اسے فی الفور نافذ کردیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستانی ماہرین تعلیم کے ایک وفد نے اپنے چیئرمین (پروفیسر تاج محمد خیال) کی قیادت میں فیلڈ مارشل سے رابطہ کر کے انہیں اس بارے میں اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے کی بھی کوشش کی تو فیلڈ مارشل نے یہ کہہ کر سب کہ ڈانٹ دیا کہ تم خود ”افلاطون“ بننے کی کوشش نہ کرو اور جو حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کیا جائے یا پھر سرکاری ملازمتیں چھوڑ دو۔ اس تقریب کے دوران امریکی مرکز اطلاعات کی طرف سے تمام مہمانوں کو امریکی نظام تعلیم کے بارے میں چند کتابوں کا ایک ایک سیٹ بھی بطور تحفہ پیش کیا گیا جس میں امریکی نظام تعلیم کے نصب العین اور نئی جہتوں کے بارے میں امریکہ کی”Yale University“کے سربراہ کی لکھی ہوئی ایک کتاب بھی شامل تھی۔ یہ کتاب میں امریکی لائبریری سے لے کر پہلے ہی پڑھ چکا تھا اور پروفیسر تاج محمد خیال نے بھی بتایا کہ وہ بھی اس کتاب کا مطالعہ فرما چکے ہیں۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے سابق سوویت یونین نے اپنے خلائی تحقیقات کے پروگرام میں (Sputnic No1)نامی دنیا کا اولین خلائی سیارہ جس میں زندہ مخلوق کے طور پر کسی خلا نورد کی بجائے بندر کے بچے (Baby Monkey)کو خلا میں بھیج کر خلائی سائنس کے میدان میں امریکہ پر اپنی برتری ثابت کر دی تھی جس پر امریکہ میں بہت شور و غوغا مچا ہوا تھا اسی تناظر میں ”Yale University“ کے سربراہ نے یہ کتاب لکھ کر امریکہ کے نظام تعلیم میں اصلاحات کی سفارش کی تھی اس کتاب کے بارے میں بھی راقم الحروف اور مرحوم و مغفور پروفیسر تاج محمد خیال میں سرسری سی بات ہوئی وہ فرمانے لگے کہ دیکھئے امریکی خود اپنے نظام تعلیم کے لئے کس قدر فکر مند ہیں مگر ہمیں ایسے ”طبقاتی نظام تعلیم“ کی دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں جسے انگریزروں کی دو سو برسوں کی غلامی کے دور میں بھی ہمارے بزرگوں نے قبول نہیں کیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام صوبوں (علاقوں) میں پرائمری سکولوں سے لے کر مدارس، ہائی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح تک یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے جو نہ تو طبقاتی ہو اور نہ فرقہ وارانہ بلکہ صحیح معنوں میں پورے ملک کا نمائندہ اور ہر عہد کی ضروریات پر پورا اترنے والا ایک ایسا نظام تعلیم ہو جو نئی نسلوں کو اعتدال، امن پسندی، قانون کے احترام اور نظم و ضبط کی خوبیاں اجاگر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اور ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک طلبا و طالبات کو ”لااکراہ فی الدین“ کے قرآنی فلسفہ کی بنیاد پر ایسی تعلیمات دے سکے جو ہر قسم کی انتہا پسندی اور دہشت گردی سے پاک ہو اور ان میں محنت و جانفشانی سے کام کرنے کی سچی لگن پیدا کر سکے تاکہ پوری ریاست ایک مربوط اور منظم قوت بن کر ابھر سکے۔ (”پھر سوئے حرم لے چل“ کا ایک باب)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024