بہادر شاہ ظفر کے استاد محمد ابراہیم ذوق کا یہ ضرب المثل شعر کسے یاد نہیں ہو گاموذن مرحبا، بروقت بولاتری آواز مکے اور مدینےیہ شعر آج چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی تقریر پڑھ کر فوراً یاد آیا جس میں انہوں نے کہا ہے پاکستان اسلام کے نام پر معرض جود میں آیا تھا۔ اسلام اور پاکستان کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی اپنے پیشہ وارانہ فرائض کے اعتبار سے پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ اعلیٰ ہیں لیکن جنرل کیانی کو پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کا بھی گہرا ادراک ہے۔ اس لئے انہوں نے کاکول اکیڈمی میں پاسنگ آﺅٹ پریڈ کے موقع پر حال ہی میں تربیت مکمل کرنے والے نوجوان فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے یہ درس دینا ضروری سمجھا کہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اور اسلام ہی پاکستان کو مضبوط رکھنے والی قوت ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ان خیالات کا اظہار کیا ہے بلکہ یہ وہ تکبیر مسلسل ہے جو جنرل کیانی نے متعدد بار بلند کی ہے کہ اسلام ہمارے قومی اتحاد کا مظہر ہے، اسے پاکستان سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل کیانی نے جی ایچ کیو میں یوم شہداءکی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ نظریہ پاکستان کے بغیر پاکستان زندہ نہیں رہ سکتا تو پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لئے اپنی جانیں قربان کر دینے والے شہداءکے والدین اور بچوںکے چہرے خوشی اور فخر سے جگمگا اٹھے تھے۔ ان کی خوشی اور افتخار اس لئے کئی گنا زیادہ تھا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ان کے شہید بیٹے ایک ایسی مادر وطن پر قربان ہوئے ہیں جو اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا۔ اس لئے پاکستان کی خاطر شہید ہونے والے اسلام کی سربلندی کے لئے بھی شہید ہوئے ہیں۔ جنرل کیانی کا یہ کہنا بھی سو فیصد درست ہے کہ مضبوط فوج کے ساتھ اگر قوم متحد ہو کر کھڑی ہو تو پاکستان کو کوئی نقصان پہنچا نہیں سکتا اور ملک و قوم کو متحد رکھنے والی طاقت اسلام اور اسلام ہے۔ جنرل کیانی نظریہ پاکستان (اسلام) کو پاکستان کے دفاع کی مضبوطی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔ اگرچہ انڈین لابی کے زیر اثر صحافیوں اور انڈیا سے امن کی جھوٹی تمنائیں اور توقعات وابستہ کرنے والے نام نہاد دانشوروں کو جنرل کیانی کے یہ خیالات اچھے نہیں لگتے لیکن پاکستان کے ایک سچے، بہادر اور غیور فوجی سربراہ کے طور پر جنرل کیانی نے یہ حقیقت بیان کرنے میں کبھی غفلت نہیں برتی کہ نظریہ پاکستان مخالف دراصل ملک کو کمزور کرنے کے بیرونی ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں۔قائداعظم نے اسلام کو پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرکہ قرار دیا تھا۔ مسلمانوں کی انڈیا سے الگ ہوکرایک جدا گانہ مملکت کی بنیاد اسلام کے سوا اور ہو بھی کیا سکتی ہے۔ اگر یہ نظریہ نہ ہوتا تو پاکستان کا وجود بھی نہ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ پاکستان ہندوﺅں کی تنگ نظری یا انگریزوں کی کسی سازش کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے اور پاکستان اُسی دن معرض وجود میں آگیا تھا جب پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ قائداعظم ہوں یا علامہ اقبال انہوں نے اپنے خطبات میں یہ بات واضح کردی تھی کہ مسلمانوں کو قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے وطن ، نسل یا زبان نہیں۔ قائداعظم کے بقول جب ہندوستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی ۔یہی وجہ ہے کہ 1938میں قائداعظم نے ایک تقریب میں مسلم لیگ کا جھنڈا لہراتے ہوئے یہ تاریخی الفاظ استعمال کیے تھے کہ ”جو جھنڈا آج لہرایا گیا ہے یہ نیا جھنڈا نہیں ہے بلکہ تیرہ سو برس پہلے کا اسلامی جھنڈا ہے“۔جب کیانی کا کول اکیڈمی میں یا جی ایچ کیومیں اپنی تقاریر میں اسلام اور پاکستان کو لازم وملزوم قراردیتے ہیں تو وہ کوئی نئی اور مختلف بات نہیں کرتے بلکہ وہ قائداعظم کے فرمودات اورتعلیمات کو دہراتے ہوئے نشانِ منزل قوم کے سامنے رکھتے ہیں۔ یہی وہ نشان منزل تھا اوریہی وہ نصب العین تھا جو تحریک پاکستان میں قائداعظم نے قوم کے سامنے رکھا تھا۔ پاکستان ہماری تہذیبی، معاشرتی اور مذہبی زندگی کے تحفظ کے لئے ناگزیر تھا۔ قائداعظم نے 12جون1938ءکو اپنی ایک تقریر میں فرمایا کہ”مسلمانوں کو پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تیرہ سوسال سے ایک مکمل پروگرام موجودہے اوروہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک میں ہماری اقتصادی، تمدنی و معاشرتی ترقی و اصلاح کے علاوہ سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اس قانون الہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طلب گارہوں وہ اسی کلام الہی کا حکم بجالانے اورعمل کرنے کی وجہ سے ہوں۔ تعلیم قرآنی ہی میں ہماری نجات ہے اور اسی کے ذریعے ہم ترقی کے تمام مدارج طے سکتے ہیں۔“پاکستان کی آزادی کے لئے قائداعظم کی جدوجہد اُن کے لئے قرآن اور اُن کے مذہب کے حکم پر عمل کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ اسی لیے آج 1938ءکے 75سال بعد جب جنرل کیانی یہ کہتے ہیں کہ پاکستان سے اسلام کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔اسلام محض ہماری گفتار کا حصہ نہیں ہوناچاہیے بلکہ اسلام کوہمارے کردار و عمل کا حصہ بھی بننا چاہئے۔ پیکر عمل بن کرہی ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق پاکستان کو ایک فلاحی مملکت بنا سکتے ۔ ایک ایسی اسلامی اور فلاحی مملکت جس کے ثمرات پاکستان کے محروم طبقوں تک بھی پہنچیں ۔ جب تک عدل و انصاف اور معاشی مساوات کے اسلامی اصول ہمارے عمل سے خارج رہے اس وقت تک ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں قائداعظم کے خوابوں کا پاکستان نہیں بنا سکتے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024